32.6 C
Delhi
July 30, 2025
Hamari Duniya
Breaking News دہلی

وقف بورڈ سے ایک اور مسجد چھیننے کی سازش کررہی ہیں ایجنسیاں

Delhi Waqf Board Masque

نئی دہلی، 12مئی (ایچ ڈی نیوز)۔
مہرولی کی مشہور مسجد سہیل والی کا وجود بھی اب خطرہ میں پڑتا نظر آرہاہے اور ایسا لگتا ہے انٹیک،اے ایس آئی اور دیگر مرکزی ایجنسیوں کی اس مسجد کو لیکر نیت میں کھوٹ ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جیتی جاگتی مسجد جس میں سالوں سے پنج وقتہ نماز ہورہی ہے اور دہلی وقف بورڈ کا مسجد میں باضابطہ امام مقرر ہے اس کے وجود سے ہی انکار کر رہے ہیں اور اس مسجد کو مقبرہ خان شاہد ثابت کرنے پر آمادہ ہیں جبکہ یہ مسجد وقف بورڈ کے ریکارڈ میں گزٹ نوٹیفائڈ ہے اور 4اکتوبر 1984کے گزٹ میں بطور خسرہ نمبر 294 درج ہے۔اس کے علاوہ دہلی کے روینیو ریکارڈ1944-45کی ”جمع بندی“ میں بھی یہ مسجد اورمقبرہ فقیر غلام علی شاہ کے نام سے وقف درج ہے۔جبکہ سالوں سے اس مسجد میں وقف بورڈ کے مقرر کردہ امام مولانا مبارک قاسمی امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تفصیل کے مطابق مہرولی کے ایک بڑے رقبہ پر انٹیک آرکیالوجیکل پارک بنارہاہے جس میں مسجد جمالی کمالی اور بادشاہ غیاث الدین بلبن کے مقبرہ کے درمیان میں جو جگہ اور مقامات ہیں انھیں شامل کیاجارہاہے۔انٹیک نے ان تمام مقامات کو جو مسجد جمالی کمالی اور مقبرہ غیاث الدین بلبن کے درمیان واقع ہیں انھیں محفوظ شدہ یادگاریں پروڈیکٹ موومنٹ اعلان کیا ہوا ہے اور ان میں کسی طرح کی تبدیلی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی اجازت کے بغیر منع ہے انہیں محفوظ شدہ یادگاروں میں مقبرہ خان شاہد بھی شامل ہے۔2015میں مسجد سہیل والی کے قریب ایک گنبد پر جو محفوظ یادگاروں میں شامل تھی مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے سازشا وہائٹ واش کرادیا گیا جس کے خلاف انٹیک نے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور اب نیا تنازع یہ پیدا ہوگیا ہے کہ حقیقت میں مقبرہ خان شاہد کس مقام پر واقع ہے۔آج اسی معاملہ کو لیکر اے ایس آئی،ڈی ڈی اے،محکمہ جنگلات کے افسران کے ساتھ وقف بورڈ کے افسران کی دہروہر بھون اے ایس آئی کے دفتر میں میٹنگ تھی جس میں وقف بورڈ کے افسران نے مسجد سہیل والی اور مقبرہ خان شاہد کے دو الگ مقامات ہونے پر دلیلیں رکھیں اور انٹر نیٹ پر موجود دستیاب مواد اور تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسجد سہیل والی (مقبرہ فقیر غلام علی شاہ)مقبرہ خان شاہد نہیں ہے بلکہ مقبرہ خان شاہد کسی اور جگہ واقع ہے جو وہاں سے تقریبا 150گز دور ہے جبکہ انٹیک اور اے ایس آئی کے افسران مسجد سہیل والی (مقبرہ غلام شاہ)کو ہی مقبرہ خان شاہد ثابت کرنے پر آمادہ ہیں۔اس سے قبل دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے بھی جائے وقوع کا دورہ کیا تھا اور ان کے ساتھ وقف بورڈ کے افسران بھی موقع پر موجود رہے تھے جس کے بعد گزشتہ 9مئی کو وقف بورڈ کے افسران نے مجوزہ آرکیالوجیکل پارک کے ان مقامات کا تفصیلی سروے کیا جن کا انٹیک نے اپنے مقدمہ میں ذکر کیا ہے اور مقبرہ خان شاہد کا اصل مقام اور جائے وقوع طے کرنے کے لئے انٹیک اور دیگر حکومتی ایجنسیوں کے افسران کے ساتھ وقف بورڈ کے سینئر افسران نے جس کی قیادت لیگل افسر ایڈوکیٹ شائستہ پروین صدیقی کر رہی تھیں میٹنگ کی اور ثابت کیا کہ مسجد سہیل والی (مقبرہ فقیر غلام علی شاہ) اور مقبرہ خان شاہد ایک نہیں ہیں جبکہ انٹیک اور اے ایس آئی کے افسران مقبرہ فقیر غلام علی شاہ(موجودہ مسجد سہیل والی)کو ہی مقبرہ خان شاہد ثابت کرنے پر آمادہ ہیں۔وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر حافظ محفوظ محمد کا کہنا ہے کہ میں اس معاملہ کو گزشتہ 15 سال سے دیکھ رہاہوں اور تمام معاملات سے واقف ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مقبرہ خان شاہد مسجد سہیل والی سے 150گز دور واقع ہے اور انٹیک و دیگر ایجنسیوں کے افسران شواہد کو نظر انداز کرکے جانبدارانہ طور پر مسجد سہیل والی کو مقبرہ خان شاہد ثابت کرنے پر آمادہ ہیں تاکہ مسجد سہیل والی میں پنج وقتہ نماز سے روکا جاسکے اور اسے مقبرہ خان شاہد ثابت کرکے محفوظ،مقامات میں شامل یادگار ثابت کردیا جائے۔غور طلب ہے کہ ابھی کچھ ماہ قبل اے ایس آئی کے افسران نے مسجد سہیل والی پہونچ کر وہاں موجود مسجد کا سامان باہر پھینک دیا تھا جسے وقف بورڈ کے افسران نے موقع پر پہونچ کر واپس مسجد میں رکھوایا اور معاملہ کی شکایت مقامی تھانہ میں کی لیکن ان افسران کی نیت ہنوز خراب ہے اور معاملہ کو مزید پیچیدہ بنانے پر آمادہ ہیں۔بہر حال یہ مقدمہ چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور وقف بورڈ بھی اب اس میں پارٹی بن گیا ہے لہذا اب تمام حقائق عدالت کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔

Related posts

مسلم پرسنل لا بورڈ کو نشانہ بنانے کی کوئی بھی کوشش قابل قبول نہیں: مولانا محمود اسد مدنی

Hamari Duniya

مسجد حرم اور مسجد نبوی ﷺ میں دنیا میں سب سے بڑے نمازِ عیدالفطر کے اجتماعات

Hamari Duniya

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنا ایک سوچارواں یوم تاسیس جوش وخروش کے ساتھ منایا

Hamari Duniya