نئی دہلی، 3 مارچ۔ جھارکھنڈ حکومت کی طرف سے مسلم ملازمین کو رمضان کے دوران تھوڑی سی رعایت کیا مل گئی بی جے پی لیڈروں کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان لیڈروں کو دیگر مذہبی تہواروں کو ملنے والی سہولیات پر ان کے اوپر جوں تک نہیں رینگتا۔واضح رہے کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے جو ہمیشہ اپنے زہریلے بیانوں کی وجہ سے سرخیوں میں بنے رہتے ہیں نے جھارکھنڈ حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب جھارکھنڈ کو اسلامی ریاست قرار دیا جانا چاہئے۔ ہیمنت حکومت پر حملہ کرتے ہوئے نشی کانت نے کہا کہ آج جھارکھنڈ ایک آتش فشاں پر بیٹھا ہے، جسے اگر ٹھیک نہیں کیا گیا تو ریاست کی پوری آبادی کو بدل دے گا۔ جھارکھنڈ میں این آر سی لاگو کیا جائے۔ جس طرح امریکہ سے غیر قانونی طور پر گئے لوگوں کو باہر نکالا جا رہا ہے، اسی طرح جھارکھنڈ سے بنگلہ دیشی لوگوں کو بھی باہر نکالا جائے۔
ایم پی نشی کانت دوبے نے پیر کو میڈیا والوں کو بتایا کہ جھارکھنڈ حکومت خود مانتی ہے کہ 648 اسکولوں میں اتوار کے بجائے جمعہ کو چھٹی ہے، یہ حکم 2007 میں کانگریس کے دور میں بھی نافذ کیا گیا تھا۔ اسکولوں کے نام زبردستی اردو میں لکھوائے جاتے ہیں، اتوار کی بجائے جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اگر رمضان کی چھٹی ہوتی ہے تو بابا بیدیا ناتھ جی کے دیوگھر پر ہونے والی دو ماہ کی کانوڑ یاترا کے لیے چھٹی کیوں نہیں ہوتی؟
نشی کانت دوبے نے کہا کہ جھارکھنڈ کی پوری ڈیموگرافی بدل گئی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق قبائلی آبادی 45 فیصد سے کم ہو کر 28 فیصد رہ گئی ہے، اب یہ مزید کم ہو کر 23-24 فیصد رہ گئی ہے۔ جھارکھنڈ قبائلی آبادی کے لیے بنایا گیا تھا۔ جھارکھنڈ کا قیام قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا گیا تھا۔ انہیں بچانے اور بنگلہ دیشیوں کو نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔قابل ذکر ہے کہ جھارکھنڈ حکومت نے مسلم ملازمین کو رمضان کے دوران ہر روز شام 4 بجے اپنے دفاتر سے نکلنے کی اجازت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رمضان کے مہینے میں ہر جمعہ کو 12 سے 2 بجے تک دفتر سے نماز کے لیے نکلنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔
