حافظ مجاہدالاسلام عظیم ٓبادی
مدیر ۔ ہفتہ واری مجلہ روح حیات
imujahid013@gmail.com
ہندوستان میں اس وقت جس موضوع پر سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے وہ ہے اڈانی گروپ اسکیم، کچھ مہینے قبل ہنڈنبرگ نامی کمپنی نے ایک مضمون بنام ”اڈانی گروپ: کس طرح دنیا کا تیسرا امیر ترین آدمی کارپوریٹ ہسٹری میں سب سے بڑے کنونشن کو کھینچ رہا ہے“ اس مضمون کے شائع ہوتے ہی پوری دنیا میں ہاہاکار مچ گیا۔آج کے اس مضمون میں ہم ہنڈن برگ اور اڈانی گروپ کے اسکیم کے بارے میں جانیں گے کہ کس طرح حکومت ہند عوام الناس کے پیسوں کو رئیس زادوں پر لٹاتی ہے۔
ہنڈنبرگ ایک آزاد سرمایہ کاری کی تحقیقی فرم ہے جو دھوکہ دہی کے کاروباری طریقوں اور مالی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ کچھ دنوں قبل فرم نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اڈانی گروپ، جس کا صدر دفتر بھارت میں ہے، بہت سی دھوکہ دہی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ نے اپنے منافع میں اضافہ کیا، اندرونی تجارت میں مصروف، اور سرمایہ کاروں کو اپنی مالی صحت کے بارے میں گمراہ کیا۔
اڈانی گروپ ایک متنوع گروپ ہے جو بندرگاہوں، توانائی، لاجسٹکس اور کان کنی سمیت مختلف شعبوں میں کام کرتا ہے۔ اس گروپ کی بنیاد 1988 میں رکھی گئی تھی اور اب یہ ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری گروپوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ اس وقت اس کی قیادت ایک ارب پتی صنعت کار گوتم اڈانی کر رہے ہیں جو ہندوستان کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔
ہندنبرگ ریسرچ رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے، اڈانی گروپ کو ہندوستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مالی بے ضابطگیوں کے متعدد الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہندوستان میں حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس پارٹی نے الزام لگایا کہ اڈانی گروپ نے حکومت کی جانب سے ترجیحی سلوک سے فائدہ اٹھایا، جس میں انتہائی رعایتی نرخوں پر زمین حاصل کرنا اور ماحولیاتی ضوابط سے چھوٹ دی گئی۔کانگریس پارٹی نے یہ بھی الزام لگایا کہ اڈانی گروپ کئی طرح کے گھوٹالوں میں ملوث رہا ہے، جس میں بجلی کے لیے اوور چارجنگ اور درآمدات کی لاگت کو بڑھانا شامل ہے۔ پارٹی نے اڈانی گروپ کی سرگرمیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت سے گروپ کے ساتھ تمام معاہدوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اڈانی گروپ نے مالی بے ضابطگی کے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور اس کے ناقدین پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایک سمیر مہم میں ملوث ہیں۔ گروپ نے وہی کہا جسکی ہم امید کر سکتے ہیں کہ یہ ہندوستان کے خلاف ایک سازش ہے اور اس نے ہمیشہ قانون کے اندر رہ کر کام کیا ہے اور اس نے ہندوستانی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہنڈنبرگ کی رپورٹ کے بعد ایسی افرا تفریح مچی کہ اڈانی گروپ پوری طرح سے سمندر میں غرق ہونے کے کگار پر آکھڑا ہوا۔اس رپورٹ کی وجہ سے اڈانی گروپ کے اسٹاک کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
حالیہ پارلیمینٹ سیشن میں راہل گاندھی نے حکومت ہند سے بہت سارے سوالات پوچھے، جن میں سے کچھ اہم سوالات درج ذیل ہیں:
درآمدات کی اوور انوائسنگ:ا ڈانی گروپ پر ٹیکس سے بچنے اور ناجائز منافع کمانے کے لیے درآمدی سامان کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا الزام ہے۔ اس گروپ نے مبینہ طور پر اس کے کوئلے کی کانوں، پاور پلانٹس اور دیگر منصوبوں کے لیے استعمال ہونے والے آلات اور مشینری کی درآمدات کو زیادہ اہمیت دی۔
اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون (اے پی ایس ای زیڈ) گھوٹالہ: اڈانی گروپ پر اڈانی پورٹ اور ایس ای زیڈ کی ترقی کے لیے گجرات کے موندرا میں کسانوں سے دھوکہ دہی سے زمین حاصل کرنے کا الزام ہے۔ الزامات میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ نے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے کم قیمت پر زمین حاصل کی اور بعد میں اسے زیادہ قیمت پر ریاستی حکومت کو بیچ دیا۔ پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) گھوٹالہ:اڈانی گروپ پر اپنے تھرمل پاور پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کے لیے ریاستی بجلی بورڈز کو زیادہ چارج کرنے کا الزام ہے۔ اس گروپ نے مبینہ طور پر صارفین کی قیمت پر اضافی منافع کمانے کے لیے پی پی اے میں ہیرا پھیری کی۔
کوئلہ گھوٹالہ:اڈانی گروپ پر کوئلے کی کان کنی کے لائسنس کو محفوظ کرنے کے لیے حکومت سے غیر قانونی امداد حاصل کرنے کا الزام ہے۔ الزامات میں کہا گیا ہے کہ گروپ کو کوئلہ بلاکس کی تقسیم میں ترجیحی سلوک کیا گیا جس سے حکومت کو مالی نقصان ہوا۔
یہ اور اس طرح کے کچھ اہم سوالات ہیں جو حکومت سے کیے گئے ہیں، اور حکومت نے جواب میں نہرو کو برا بھلا کہاہے۔۔۔جی ہاں ان سارے سوالات کے جواب میں مودی جی نے گاندھی خاندان کی کنیت پر انگلی اٹھائی اور کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا، حد تو تب ہوگئی جب اگلے دن صدر کی جانب سے یہ حکم ہوا کہ راہل گاندھی کے پارلیمینٹ میں دیئے گئے بیان کو حذف کر دیا جائے۔ حکومت کے اس قدم سے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہیکہ دال میں کچھ کالا نہیں ہے بلکہ یہاں پوری دال ہی کالی ہے۔
بحرکیف یہ بات کسی سے نہیں چھی کہ مودی اور اڈانی کے درمیان قریبی ذاتی اور کاروباری تعلقات ہیں۔یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اڈانی گروپ کو مودی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ پالیسیوں سے فائدہ ہوا ہے، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں۔ اڈانی گروپ نے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے لیے کئی معاہدے حاصل کیے ہیں، اور اسے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے مختلف رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔
اڈانی گروپ کے خلاف مالی بے ضابطگی کے الزامات اہم ہیں اور ہندوستانی کاروباری ماحول کی سالمیت کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ الزامات اس گروپ کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کا باعث بنیں گے یا سیاسی کیچڑ اچھالنے کی ایک اور مثال بن کر ختم ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود، تنازعہ کاروباری طریقوں میں شفافیت اور جوابدہی کی اہمیت اور دھوکہ دہی کا پتہ لگانے اور روکنے کے لیے مضبوط میکانزم کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
