29.5 C
Delhi
August 21, 2025
Hamari Duniya
Uncategorized

کہیں مجبوری تو کہیں عدم دلچسپی کے سبب تعلیم سے دور ہوتے مسلم نوجوان

وارانسی ،28 فروری (ایچ ڈی نیوز)۔
اسلام میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہے ،اور اس کا حصول فرض قرار دیا گیا ہے لیکن جس طرح مسلمانوں نے اسلام کے دیگر احکامات کو پس پشت ڈال دیا ہے اسی طرح اس قوم نے تعلیم جیسے بنیادی حکم کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔تعلیم کو کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ قرار دیا جاتا ہے مگر ہم اس زینہ کے بغیر دنیا جہان کی ترقی حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔
شہر بنارس سے تقریباً 20 سے 25 کلو میٹر فاصلے پر واقع گاؤں اسلام پور میں مسلمان کثیر تو نہیں مگر خاطر خواہ تعداد میں آباد ہیں۔اس چھوٹی سی آبادی میں بکثرت اسکول ہیں۔مگر مسلم نوجوانوں کا نظریہ دینی تعلیم تو چھوڑیئے دنیاوی تعلیم کے سلسلے میں حیران کن ہے ۔  اسلام پور کے نوجوان تعلیم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس تعلق سے علاقے میں تعلیم و تدریس سے وابستہ عبد الرحمان بنارسی نے مختلف روزگار سے وابستہ نوجوانوں سے گفتگو کر کے ان کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش کی ہے ۔جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے ہمارے نوجوان اپنی زندگی میں تعلیم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ گفتگو پیش خدمت ہے۔
آصف نصرالدین کی عمر 20 سال ہے وہ چکن شاپ پر120 روپئے یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں تعلیم آٹھویں کلاس تک حاصل کی ہے۔ آگے پڑھائی کیوں نہیں کی پوچھنے پر کہتے ہیں کہ گھر والے آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کہہ رہے تھے مگرمیں نے منع کر دیا، پوچھا کہ کیوں منع کر دیا، کہنے لگے کہ اتنی پڑھائی بہت ہے۔ میں نے کہا120 روپئے دہاڑی میں آگے گزارا کیسے ہوگا ؟ تو تھوڑے ناراض ہوکر بولے یہ تو میں شوقیہ کررہا ہوں ،ہمیشہ تھوڑی کرونگا ۔میں نے پوچھا پھر کیا کریں گے؟ کہنے لگے بیرون ملک چلاجاؤنگا۔
عرفان ریاض کی عمر19 سال ہے ۔بارہویں پاس ہیں فی الحال روزگار کی تلاش میں ہیں۔ آگے تعلیم کیوں نہیں حاصل کی، پوچھنے پر کہتے ہیں کہ مجبوری تھی اس لئے چھوڑ دیا۔
رمضان عرف نانک کی عمر بیس سال ہے، بچپن میں صرف ایک مہینہ مدرسہ گئے۔ اس کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا پڑھائی کیوں چھوڑ دی؟ پوچھنے پر کہتے ہیں پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا، میں نے کہا لیکن تعلیم تو ضروری ہے، کہنے لگے ہاں، پھر کیوں نہیں پڑھے؟ کہنے لگے کہ دل نہیں لگ رہا تھا، میں نے پوچھا کہ کیا گھر والوں نے پڑھنے کے لئے زور نہیں دیا تو کہنے لگے: جی نہیں بلکہ کام میں لگا دیا، میں نے پوچھا کہ مستقبل میں کیا کریں گے۔ کہنے لگے فی الحال پاور لوم چلا رہا ہوں آگے کا معلوم نہیں۔
کلیم شمشاد آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ساتھ ہی اپنے والد کے ساتھ دوکان پر بھی بیٹھتے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ کتنا پڑھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا: دس تک پڑھنا ہے ، میں نے پوچھا اس کے آگے کیا ارادہ ہے تو کہا کہ ابا کہتے ہیں دس تک بڑھ لو، میں نے پوچھا آپ آگے کیا چاہتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا اگر گھر والے اجازت دینگے تو حفظ کرنا چاہتا ہوں ۔
رضوان عبد الحمید 20 سالہ نوجوان ہیں پاور لوم چلاتے ہیں۔ آٹھویں تک پڑھائی کی پھر چھوڑ دیا۔ ان کے والدین نے آگے پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے، میں نےان سے پوچھا کہ آگے پڑھائی کیوں نہیں کی، تو کہنے لگے دل نہیں لگ رہا تھا، میں نے پوچھا آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے ۔تو کہا سعودی جاؤں گا،میں نے کہا سعودی ضرور جائیں لیکن آگے پڑھائی جاری رکھنی چاہئے تھی، پھر وہی جواب ملا کہ دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔

Black board

جنید قمر بیس سال کے نوجوان ہیں، تعلیم درجہ پانچ تک ہے، جو مدرسے میں ہوئی ہے، تعلیم کے سلسلے میں کہتے ہیں : انسان کو زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنی چاہئے،‌پھر آگے تعلیم کیوں نہیں حاصل کی؟ کہتے ہیں کہ گھر میں معاشی تنگی تھی اس لئے پڑھائی چھوڑ دی، کہتے ہیں کہ گھر والوں نے بھی پڑھنے پر زور نہیں دیا اور کام کاج میں لگا دیا، آگے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کہتے ہیں ابھی کچھ سوچا نہیں ہے۔
شاہد جمال پاور لوم چلاتے ہیں عمر بائیس سال ہے ، دیندار نوجوان ہیں، تعلیم پرائمری تک اسکول میں حاصل کی ہے۔آگے تعلیم کیوں نہیں حاصل کی؟ بتایا کہ پانچویں کے بعد کام میں لگ گیا، گھر والوں نے بھی دھیان نہیں دیا اس طرح تعلیمی سلسلہ چھوٹ گیا۔
آگے کیا ارادہ ہے؟کہاابھی کچھ سوچا نہیں۔
سلطان سلیم پاور لوم چلاتے ہیں مدرسے میں پانچویں درجہ تک پڑھائی کی ہے، پڑھنے میں بہت ذہین تھے ، آگے پڑھائی کیوں نہیں کی؟ کہتے ہیں میں پڑھنا چاہتا تھا گھر والوں نے کام پرلگا دیا۔ آگے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کہتے ہیں میں تو آج بھی پڑھنا چاہتا ہوں۔ان کی پڑھنے کی چاہت اور گھر والوں کا ردعمل جان کر بہت افسوس ہوا۔
ساحل ابن عبد الحق اکیس سال کے نوجوان ہیں، ان کا خیال ہے کہ تعلیم دینی ہو یا عصری زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہئے۔ میں نےان سے پوچھا : پھر آپنے پڑھائی کیوں چھوڑ دی؟ اس کا وہ کوئی جواب نہیں دیتے خاموش رہتے ہیں۔ میں سلسلۂ کلام آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا : آگےکیا کرنا چاہتے ہیں؟ کہتے ہیں ابھی کچھ سوچا نہیں۔
ابواللژ عرف شیبو انتیس سال کے نوجوان ہیں، ڈرائیونگ کرتے ہیں، پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے،اس کے بعد پڑھائی کیوں نہیں کی؟ کہتے ہیں ک دل نہیں لگتا تھا۔تعلیم کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں، جواب میں کہتے ہیں: تعلیم حاصل کرنا چاہئے ۔
مذکورہ بالا گفتگوسے ہمارے اکثر نوجوانوں اور ان کے والدین کے خیالات تعلیم کے سلسلے میں کیا ہیں واضح ہو جاتا ہے ۔افسوس ہے ہمارے اکثر نوجوانوں کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے ، وہ بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔

Related posts

امیر جماعت اسلامی سعادت اللہ حسینی نے75 سالہ سفر پر ڈالی تفصیلی روشنی، یہ کام نہ کر پانے پر افسوس کا اظہار

Hamari Duniya

فیفا عالمی کپ2022: مراکش نے ہار کر بھی جیتا دل،فرانس فائنل میں

Hamari Duniya

صدر جمہوریہ نے 67 شخصیات کو پدم ایوارڈ سے نوازا

Hamari Duniya