کیرانہ: 14اکتوبر(عظمت اللہ خان)۔
کیرانہ کی رکنِ پارلیمنٹ اقراء حسن نے سوشل میڈیا بیان کے ذریعے حالیہ دنوں میں ہندو تنظیموں کے کارکنان کی جانب سے کی گئی بدزبانی اور اشتعال انگیزی پر سخت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جو لوگ آج ایک خاتونِ رکنِ پارلیمنٹ کے خلاف گالیاں اور توہین آمیز الفاظ استعمال کر رہے ہیں، انہیں ایک سابق ایم پی کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اقراء حسن نے کہا کہ “اگر میں اس لڑکے کے بیان کی مذمت کرتی ہوں جس نے ایک بہن کے خلاف غلط بات کہی ہے تو میرا سوال صرف محترم سابق ایم پی سے ہے کہ کیا وہ اپنے ان حامیوں کا بھی کھنڈن کریں گے جن سے وہ مجھے گالیاں دلوارہے ہیں؟ کیا ان کے گھروں میں بہن بیٹی نہیں ہے؟” انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف جو زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ صرف ان کی نہیں بلکہ پورے سماج کی خواتین کی توہین ہے۔ اقراء حسن نے مزید کہا کہ “مجھے آتنکـی کہا گیا، ملی کہا گیا، میرے والد اور بھائی کے لیے نازیبا الفاظ کہے گئے، لیکن اب یہ حد پار ہو چکی ہے۔ میں خاموش نہیں رہوں گی۔”
اقراء حسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کسی افسر سے کارروائی کے لیے درخواست نہیں کی تھی بلکہ خود پولیس کپتان نے انہیں فون کرکے تحریر منگوائی۔ ان کے مطابق، ایسے عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو خواتینِ عوامی نمائندوں کی توہین کو معمول سمجھ بیٹھے ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس سے قبل کرنی سینا کے لیڈر یوگندر رانا کا ایک پرانا ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں انہوں نے اقراء حسن کے بارے میں غیر شائستہ اور توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔ اس ویڈیو میں رانا نے انہیں شادی کی پیشکش کے ساتھ متعدد غیر اخلاقی جملے کہے تھے جس پر عوامی ناراضگی کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم حالیہ معاملہ اُس پرانے واقعے سے مختلف ہے۔ اس بار مختلف ہندو تنظیموں کے کارکنان نے اقراء حسن کے خلاف سوشل میڈیا اور جلسوں میں نازیبا زبان استعمال کی ہے۔ اقراء حسن نے کہا کہ “یہ پہلا موقع نہیں ہے، بار بار ایک ہی حلقے کے لوگ ایسی گھٹیا حرکتیں کر رہے ہیں۔ سماج میں جو سندیش جا رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔”
انہوں نے موجودہ حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ “ایک طرف سرکار ہماری بہنوں کو ایک دن کے لیے ایس ڈی ایم کی کرسی پر بٹھا کر خواتین کو عزت دینے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن جب ان کرسیوں کی حرمت باقی نہیں رہی تو وہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟”
اقراء حسن کے اس بیان کے بعد مقامی سطح پر سیاسی ہلچل دیکھی جا رہی ہے۔ کئی مسلم تنظیموں اور سماجی کارکنان نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جبکہ بی جے پی کے مقامی حلقوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر کسی خاتونِ ایم پی کے خلاف گالم گلوچ کو نظر انداز کیا جائے تو عام خواتین کی عزت کا کیا تحفظ رہ جائے گا۔
