Hamari Duniya
Breaking News مضامین

مودی کا مالدیپ دورہ: تعلقات میں نیا آغاز

Modi’s Maldives Visit Resets Ties - Sujan Chinoy:
PM Modi

قلمکار: سجان چینوئے

وزیر اعظم نریندر مودی کا 25 جولائی 2025 کو مالدیپ کا مجوزہ سرکاری دورہ دونوں ممالک کے درمیان روایتی طور پر قریبی اور دوستانہ تعلقات کی توثیق کرے گا۔ یہ دورہ کئی وجوہات سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔یہ صدر معیزو کے نومبر 2023 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی کا مالدیپ کا پہلا دورہ ہوگا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم مودی کو مالدیپ کی آزادی کی 60 ویں سالگرہ کی تقریبات میں “مہمان خصوصی” کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔سال 2025 دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 60 ویں سالگرہ کا بھی مظہر ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ صدر معیزو 2023 کے صدارتی انتخابات سے قبل نام نہاد ‘‘انڈیا آؤٹ’’ مہم سے منسلک تھے۔ دسمبر 2023 میں دبئی میں منعقدہ سی او پی28 (کوپ 28)کے موقع پر وزیرِ اعظم مودی سے اپنی پہلی ملاقات کے بعد، مالدیپ کے صدر کی جانب سے جاری کردہ سرکاری بیان میں دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے، اقتصادی تعاون کو فروغ دینے، اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔دونوں ممالک نے ایک مشترکہ کور گروپ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
ادھر میڈیا رپورٹس میں صدر معیزو کے اس بیان کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے بھارت کی جانب سے تحفے میں دیے گئے ڈورنیئر طیارے اور دو ہیلی کاپٹروں کو چلانے والے بھارتی فوجی تکنیکی عملے کے انخلا کی بات کی تھی۔تاہم، مارچ 2024 تک دونوں ممالک نے اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے سلجھا لیا، اور ان فوجی اہلکاروں کی جگہ سویلین ماہرین نے لے لی۔جون 2024 میں معیزو کا بھارت کا دورہ، جہاں وہ نئی مرکزی حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے، اور اس کے بعد اکتوبر 2024 میں ان کا باضابطہ سرکاری دورہ، دونوں نہایت کامیاب رہا۔یہ کامیابیاں وزیراعظم مودی کے اُس طویل مدتی وژن کی توثیق کرتی ہیں جس کا مقصد بھارت اور اس کے ایک اسٹریٹجک طور پر اہم بحری پڑوسی کے درمیان پُرامن اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات استوار کرنا ہے۔
اپنے دورۂ ہند کے دوران، صدر معیزو نے نہ صرف ایک جامع اقتصادی و بحری سلامتی شراکت داری کے لیے مشترکہ وژن دستاویز کو حتمی شکل دی، بلکہ دفاع اور بحری سلامتی کے شعبے میں بھارت کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر تسلیم بھی کیا۔اسی طرح، اُن کا یہ اعتراف بھی نہایت اہم تھا کہ بھارت مالدیپ کی سماجی، اقتصادی اور انفراسٹرکچر کی ترقی میں ایک فیاض اور کلیدی شراکت دار رہا ہے — ایک ایسا ملک جو ہر مشکل وقت میں مالدیپ کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔
اس کو ایک اہم تناظر سےسمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج بھیاور تب بھی، مالدیپ شدید اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ دسمبر 2023 کے آخر میں مالدیپ کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 590.5 ملین امریکی ڈالر تھے، جو اگست 2024 تک کم ہو کر صرف 443.9 ملین ڈالر رہ گئے — جو کہ بمشکل ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔یہ صورت حال خاص طور پر تشویشناک تھی کیونکہ مالدیپ کی معیشت مکمل طور پر درآمدات پر منحصر ہے، خواہ وہ خوراک ہو یا تعمیراتی سامان جیسے دریا کی ریت اور پتھریلے کنکر۔ایسے وقت میں، بھارت 1981 سے مسلسل مالدیپ کو ضروری اشیاء فراہم کر رہا ہے۔ خاص طور پر دالوں کی فراہمی کے حوالے سے،رواں سال کے لیے منظور شدہ مقداریں اب تک کی سب سے زیادہ ہیں۔یہ اقدامات نہ صرف بھارت کی‘‘پڑوس مقدم’’پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور گہرے تعلقات کا ثبوت بھی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سال 2024 کی پہلی سہ ماہی میں مالدیپ پر قرضوں کا بوجھ غیر معمولی طور پر زیادہ تھا۔اسی پس منظر میں، بھارت نے مالدیپ کے ساتھ 400 ملین امریکی ڈالر کے کرنسی کے باہمی تبادلے سے متعلق(کرنسی سویپ) معاہدے کو حتمی شکل دی، 3,000 کروڑ بھارتی روپے کی ایمرجنسی بجٹ امداد فراہم کی، اور 100 ملین ڈالر مالیت کے ٹریژری بلزکو بلا سود ایک سال کے لیے مزید توسیع دی۔اس سال بھی، مالدیپ کی حکومت کی درخواست پر اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے مالدیپ کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ 50 ملین امریکی ڈالر کے حکومتی ٹریژری بل کو مزید ایک سال کے لیے خریدنے کی منظوری دی ہے۔
بھارت، وسیع قرضہ جات (لائن آف کریڈٹ)کے ذریعے مالدیپ کے لیے سب سے بڑے ترقیاتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ یہ وزیراعظم مودی کی حکومت کے اس مضبوط عزم کا مظہر ہے کہ وہ مالدیپ کی ترقی و خوشحالی اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھرپور تعاون جاری رکھے گی۔‘‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’’ محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ بھارت کی ہمسایہ ممالک سے وابستگی کا رہنما اصول ہے جو بھارتی تہذیبی ورثے وسودھیو کٹمبکم (یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے) سے جڑا ہوا ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والے اعلیٰ سطحی روابط نے وزیراعظم مودی کےمالدیپ کے دورے کی مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ مالدیپ کے وزرائے خارجہ اور دفاع، نیز مالدیپ کی پارلیمان (مجلس) کے اسپیکر بھارت کے دورے کر چکے ہیں، اس کے علاوہ دیگر سرکاری وفود بھی بھارت آئے۔بھارت کے وزیرِ خارجہ نے بھی اگست 2024 میں مالدیپ کا دورہ کیا تھا۔
صدر معیزو کے گزشتہ سال بھارت کے دورے کے دوران، دونوں ممالک نے دفاع اور بحری سلامتی کے شعبے میں تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا، خاص طور پر مالدیپ کی نیشنل ڈیفنس فورس (ایم این ڈی ایف)کی نگرانی اور مانیٹرنگ کی صلاحیت بڑھانے پر زور دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے راڈارنظام اور دیگر آلات کی فراہمی پر اتفاق ہوا۔اہم بات یہ ہے کہ مشترکہ وژن دستاویز میں بھارت کی جانب سے مالدیپ حکومت کی ضروریات کے مطابق مالدیپ کو ہائیڈروگرافک (آبی نقشہ سازی) امور میں تعاون فراہم کرنے کا بھی ذکر تھا، جس میں صلاحیت سازیاور تربیت شامل ہیں۔اس کے علاوہ، دونوں ممالک نے متعدد چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا: جیسےغیر قانونی، بے ضابطہ اور رپورٹ نہ کی گئی ماہی گیری(آئی یو یو فیشنگ)،منشیات کی اسمگلنگ،دہشت گردی،مالدیپ کی نیشنل ڈیفنس فورسز کی تربیت اور استعداد میں اضافہ،بحر ہند کے خطے میں استحکام اور خوشحالی،ہائیڈروگرافی اور قدرتی آفات سے نمٹنے میں باہمی تعاون کو فروغ دینا۔دونوں ممالک نے یہ بھی تسلیم کیا کہ‘‘اکتھا’’ بندرگاہ کا جاری منصوبہ جو اُتھرو تھِلا فالہو(یو ٹی ایف)میں بھارت کی مدد سے تعمیر کیا جا رہا ہے جو ایم این ڈی ایفکی آپریشنل صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کرے گا۔
سولر لائٹنگ، پانی کی نکاسی،منشیات سے نجات کے مراکز، ایمبولینس خدمات اور دماغی صحت جیسے عوامی فلاح کے اعلیٰ اثراتی ترقیاتی منصوبے وزیراعظم مودی کی ہمسایہ ممالک کے لیے انسان پر مرکوز پالیسی کی بنیاد ہیں۔
صدر معیزو کے بھارت کے دورے اور وزیراعظم مودی کے مالدیپ کے دورے کے درمیان بھارت کی حکمتعملی میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے یعنی ساگر (خطے میں سب کے لیے سلامتی اور ترقی) سے مہاساگر(خطوں کے درمیان باہمی اور جامع ترقی و سلامتی) کیجانب پیش رفت۔جہاں ساگرکا تصور زیادہ تر بحرہند کے خطے تک محدود تھا، وہیں مہاساگربھارت کی معیشت، سیاست اور ثقافت کے وسیع تر دائرہ اثر خصوصاً عالم جنوب (گلوبل ساؤتھ)تک رسائی کی عکاسی کرتا ہے۔یہ نقطۂ نظر بھارت کی عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی حیثیت بطور دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت کے عین مطابق ہے۔
بھارت ہمیشہ مالدیپ کے عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔کووڈ-19 کے دوران، وزیراعظم مودی کی حکومت نے مالدیپ کو ویکسینز، بجٹ کی مد میں مالی امداد، اور ایک خصوصی‘ایئر ٹریول ببل’ فراہم کیا تاکہ مالدیپ کے عوام کی صحت کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔گزشتہ سال بحراحمر بحران کے دوران، رمضان سے عین قبل ترکی سے خوراک کی کھیپ کی فراہمی میں تاخیر ہو گئی تھی جو مالدیپ اور ترکی کے نئے دو طرفہ معاہدے کے تحت بھیجی جا رہی تھی۔ ایسے نازک وقت میں بھارت نے اپنا دیرینہ ہمسایہ ہونے کا ثبوت دیا اور عالمیسطح پر چاول، چینی اور پیاز کی برآمدات پر پابندی کے باوجود ان اشیاء کی مالدیپ کو برآمد کی منظوری دی۔
یہ اس اہم حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ جغرافیہ اہمیت رکھتا ہے۔ایسی زمینی حقیقتیں موجود ہیں جو بھارت اور مالدیپ کو عملی اور حقیقت پسندانہ سطح پر ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔گزشتہ سال سے پیدا ہونے والی باہمی خیرسگالی کے جذبے کی بنیاد پر، وزیراعظم مودی کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے شعبے میں تعاون اور عوامی سطح پر روابط کو مزید مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔یہ دورہ اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت اور مالدیپ نہ صرف قریبی ہمسایے ہیں بلکہ باہمی احترام، تعاون اور مشترکہ ترقی کے شراکت دار بھی ہیں۔

(مصنف، جو کہ ایک سابق سفیر ہیں، اس وقت منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ برائے دفاعی مطالعات و تجزیات کے ڈائریکٹر جنرل ہیں؛ اظہارِ خیال ذاتی ہے)

Related posts

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں لئے گئے کئی اہم فیصلے

دہشت گردی، بد امنی، مذہبی منافرت ، غیر سماجی سرگرمیوں اور اشتعال انگیزی کی سخت الفاظ میں مذمت:

Hamari Duniya

AIMPLB Delegation Meet JPC: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات،وقف ترمیمی بل پر بورڈ نے تفصیل سے اپنا موقف پیش کیا

Hamari Duniya

اقوام متحدہ میں اسرائیلی بربریت کی حمایت نہ کرنے پر بھارت سے اسرائیلی وزیر اعظم ناراض

Hamari Duniya