مزمل الرحمان قاسمی
الحمدللہ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کے اس طالب علم نے محض 100 دن میں مکمل قرآن کریم حفظ کیا ہے طالب علم کے استاد کے بقول کہ اس طالب علم نے اتنی محنت کی ہے کہ ہم اس کو بسکٹ وغیرہ کھانے کو دیتے تھے تو اگلے دن وہ اسکی جیب سے ویسا کا ویسا ہی نکلتا تھا معلوم کرنے پر وہ طالب علم کہتا تھا کہ اسکو کھانے کا وقت ہی نہیں ملا ہے ۔ الحمدللہ اس طالب علم کو جامعہ کے مہتمم خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب نے دس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے اور ایک شخص نے عمرہ پر بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور امریکہ کے ایک آدمی نے بھی 100 ڈالر اس طالب علم کو دینے کا وعدہ کیا ہے اسی طرح کویت کے ایک شخص نے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ “
کل (29/نومبر 2022ء بروز منگل) جب فیس بک پر مذکورہ بالا خبر موصول ہوئی، تو دل خوشی سے جھوم اٹھا اور ایک نہایت ہی ویران و سنسان وادی میں آباد و شاداب گلشن، جہاں ناچیز راقم الحروف بھی خوشہ چینی کی سعادت سے بہرہ ور ہے، کے وہ سارے تعلیمی و روحانی مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ، جن کا اپنے زمانۂ طالب علمی کا بچشم خود مشاہدہ کیا اور ان سے بقدر توفیق باری اکتساب فیوض بھی کیا ہے؛ اس لیے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس کا تعلیمی و تربیتی نظام مختصراً نذر قارئین کر دیا جائے، جس کی برکت سے وہاں ”إنا نحن نزلنا الذکر و إنا لہ لحافظون“ کے قرآنی معجزہ کا ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ خود میرے ساتھ بھی فراغت پانے والوں میں ایک چاچا جی بھی شامل تھے، جو کسی سرکاری سروس سے رٹائرڈ ہونے کے بعد وہاں بغرض حفظ قرآن داخل ہوئے تھے اور محض ایک سال کی قلیل مدت میں انہوں نے از اول تا آخر حفظ قرآن مکمل کر لیا تھا۔ تاکہ خدمت قرآن کے نام پر معصوموں کی زندگیاں برباد کرنے والے نام نہاد خدام القرآن کے لیے عبرت اور قرآن کریم کی تعلیم سے محروموں کے لیے رغبت کا سامان بنے ۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز
چنانچہ اس سلسلے میں جامعہ کے شعبۂ عربی کے استاذ حضرت مولانا جہانگیر صاحب قاسمی (حفظہ اللہ) جن کی سرپرستی میں میں وہاں زیرِ تعلیم تھا، سے گزشتہ شب رابطہ کیا اور جامعہ سے متعلق مختصر معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کی روشنی میں بعنوان ”خوش قسمت ہوں“ درج ذیل سطور کی ترتیب عمل میں لانے کی حقیر سی کوشش کی۔
تو آئیے قارئین! سب سے پہلے اس ویران وادی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں قرآن کریم کا یہ چشمہ جاری ہے اور پوری دنیا میں اس کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔ یعنی صوبہ مہاراشٹر کے ضلع دھولیہ (حال نندوربار) کا نہایت پس ماندہ علاقہ جہاں پشتہا پشت سے آدی باسی قوم رہتی ہے اور اس کی بنجر زمین میں، جو کسی بھی قسم کے فصل کی کاشت کے لائق نہیں ہے، کیلے کی کھیتی کرتی اور ان ہی کھیتوں کے کسی گوشے میں چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں؛ بلکہ چھپڑ ڈال کر ان کے نیچے اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ اسی ضلع کی ایک چھوٹی سی بستی ”اکل کوا“ میں، جو مولگی پہاڑ کے جنوبی جانب میں واقع ہے، 1400ھ =1979ء میں حضرت خادم القرآن والمساجد مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم کے ہاتھوں اس ادارہ کی بنیاد پڑی۔ مشہور روایت کے مطابق ان دنوں یہ پورا علاقہ جہالت و ضلالت کی نہایت گھنیری تاریکی میں غرق تھا اور یہاں کی آدی باسی قوم انسانیت و آدمیت سے محروم حیوانیت کی ایسی زندگی بسر کر رہی تھی کہ اس کے مرد و زن دونوں کھلے عام ننگے رہا کرتے تھے؛ چنانچہ سب سے پہلے حضرت کے بڑے بھائی اور جامعہ کے ناظم اول حضرت مولانا یعقوب صاحب وستانوی (نوراللہ مرقدہ) نے ان کے درمیان کپڑے تقسیم کر کے انہیں انسانی عزت بخشی تھی۔ اس شرمناک حقیقت کی کچھ جھلک راقم کی نگاہوں سے بھی اس کے زمانۂ قیام (8/2007) میں گزری کہ جب عصر اور فجر کے بعد بغرض تفریح کھیتوں کی طرف ساتھیوں کے ساتھ جانا ہوتا تو صرف اپنے چھپڑوں کے نیچے ہی نہیں؛ بلکہ باہر بھی کبھی کبھار مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی عریاں بیٹھی ہوئی تو کبھی نہاتی ہوئی نظروں سے ٹکڑا جاتی تھی؛ لیکن اسی اندھیرے میں جب حضرت خادم القرآن نے قرآن کی تعلیم کا چراغ روشن کیا اور اس میں اپنے اخلاص کا تیل ڈالتے رہے تو وہ نہایت ہی قلیل عرصہ میں ایک پاور ہاؤس کی حیثیت حاصل کر کے اس وقت سو سے زیادہ شاخوں کو روشنیاں پہنچا رہا ہے اور خود اس کے احاطے میں کم و بیش ساڑھے سات ہزار طلبہ موجود ہیں ۔ ان میں کم و بیش تین ہزار شعبۂ دینیات، ڈھائی ہزار سے کچھ زائد شعبۂ حفظ اور بقیہ شعبۂ عربی بشمول تکمیلات و تخصصات سے متعلق ہیں ۔
اس طویل مگر مفید تمہید کے بعد آمدم برسرِمطلب ۔ یعنی اس کے تعلیمی نظام پر گفتگو، تو اس کی تنظیم کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ تینوں شعبے باہم منقسم ہو کر الگ الگ احاطوں میں الگ الگ ناموں کے ساتھ موسوم ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ایک مستقل صدر ہے، جس کے سپرد اس سے متعلق شعبہ کے تمام تعلیمی امور کی نگرانی و انجام دہی ہے، نیز یہ کہ تینوں شعبوں کے نظام الاوقات بھی باہم مختلف ہیں، جس کی وجہ سے ہر ایک شعبہ گویا ایک علیحدہ و مستقل مدرسہ بن گیا ہے؛ چنانچہ شعبۂ دینیات میں، جس کا احاطہ دارالتعلیم و التربیت کے نام سے موسوم ہے، سب سے پہلے تعلیم شروع ہوتی ہے، اس کے پندرہ منٹ بعد شعبۂ حفظ میں جس کے احاطہ کا نام دارالقرآن ہے اور پھر اسی طرح شعبۂ عربی میں بھی، جسے وہاں کی اصطلاح میں کتب کہا جاتا ہے۔ البتہ شعبۂ حفظ کے نظام الاوقات میں نہایت مشکل؛ مگر مفید اضافہ یہ ہے کہ فجر سے قبل بھی اس میں ایک گھنٹہ کی کلاس ہوتی ہے، جس میں اساتذہ حاضر ہو کر طلبہ کا سبق سنتے ہیں۔
شعبۂ حفظ کا تعلق چوں کہ دینیات سے ہے؛ بلکہ یہی حفظ تک پہنچنے کا زینہ ہے؛ اس لیے حفظ سے قبل دینیات کا نظام اور اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کر دینا ضروری سمجھ رہا ہوں کہ اس کا نصاب بھی وہی ہے جو عموماً دیگر مدارس کا ہوا کرتا ہے ۔ یعنی نورانی قاعدہ اس کے بعد ناظرہ قرآن مع تجوید، ضروری دینی مسائل، ادعیۂ ماثورہ اور اردو لکھنا پڑھنا وغیرہ؛ لیکن اس کے نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ ناظرہ قرآن کے ساتھ شروع سے ہی مستقل قاری کے ذریعے تجوید پر خصوصی محنت کروائی جاتی ہے، جس میں ترتیل، تدویر اور حدر کی مشق کے علاوہ تجوید کے ضروری قواعد یاد کروانا بھی شامل ہے اور اس میں سہولت کے لیے مکمل قرآن کریم کو تین سالوں پرمنقسم کر دیا گیا ہے۔ یعنی سال اول میں پہلا پارہ سے تیسرا پارہ تک، دوسرے سال میں چوتھا سے تیرہواں تک اور تیسرے میں چودہواں سے تاختم قرآن ۔ اور ان تین سالوں میں خاص طور پر تجوید کی مکمل رعایت کے ساتھ عربی لہجہ میں حدر پر اس قدر سخت محنت کروائی جاتی ہے کہ ناظرہ کے ننھے ننھے معصوم طالب علموں کا قرآن کریم کے ساتھ شب و روز چمٹے رہنے کا روح پرور منظر شاید ہی اس کے علاوہ کسی دوسرے مدرسہ میں موجود ہو، اسی کا نتیجہ یہ مذکورہ بالا طالب علم ہے، جس نے محض سو دنوں کی قلیل مدت میں از اول تا آخر حفظ قرآن مکمل کر لیا ہے۔ جیسا کہ راقم کے ساتھیوں میں بھی بیشتر ایسے تھے جنہوں نے محض ڈھائی تین سال یا زیادہ سے زیادہ چار سالوں میں حفظ کے ساتھ ساتھ دور بھی مکمل کر لیا تھا؛ بلکہ وہاں ہمارے بہار کی طرح حفظ کے بعد الگ سے دور کا تصور ہی نہیں ہے ۔
شعبۂ حفظ یعنی دارالقرآن کے نظام کی خصوصیات، جو میری اس تحریر کا خاص موضوع ہے، وہ قدرے تفصیل کے ساتھ ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں ۔
تو آئیے داخلہ سے لے کر فراغت تک کے تمام مراحل پر بالترتيب روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ چنانچہ اس کا بھی نصاب وہی عام مدارس جیسا ہے۔ یعنی حفظ کے ساتھ تجوید و قرأت اور ضروری دینی مسائل و ادعیۂ ماثورہ وغیرہ؛ لیکن اس کا نظام کچھ اس طرح چلتا ہے کہ سب سے پہلے شعبان ہی میں آئندہ نئے تعلیمی سال کے لیے دینیات سے فارغ ہو کر حفظ میں آنے والے طلبہ کے داخلہ کی جمیع کارروائی مکمل کر لی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد جب شوال میں باہر سے آئے ہوئے جدید طلبہ کے داخلہ کی کارروائی شروع ہوتی ہے تو اس میں بس ضابطہ کی پاس داری کے لیے نہایت ہلکا پھلکا امتحان لے کر ان تمام طلبہ کو داخل کر لیا جاتا ہے جو قدرے تجوید کی رعایت کے ساتھ بھی ناظرہ پڑھ لینے پر قادر ہوں اور مکمل و غیر مکمّل حافظ کی یاد داشت سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کا کوٹا پورا ہو جاتا ہے تو پھر پورے سال کے لیے جدید داخلہ کا دروازہ مکمل طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔
داخلے کی کارروائی مکمل کر لینے کے بعد جب تعلیم شروع ہوتی ہے تو ابتداءً تمام ہی جديد طلبہ بشمول حفاظ کا روزانہ ایک یا آدھ صفحہ ہی سبق سنا جاتا ہے، اس طرح جب پہلا پارہ مکمل ہو جاتا ہے تو دوسرا پارہ شروع کرنے سے قبل وہاں کے ضابطہ کے مطابق استاذ اس کو حفظ کے ہی کسی دوسرے استاذ کے پاس امتحان کے لیے بھیجتے ہیں، اگر امتحان کے بعد ان کی طرف سے ترقی کا مشورہ دیا جاتا ہے تو پھر سبق کے مقدار میں تھوڑی بڑھوتری کی اجازت دی جاتی ہے، ورنہ نہیں۔ پھر جب دوسرا تیسرا پارہ مکمل ہوتا ہے تو اس میں بھی یہی عمل دہرایا جاتا ہے، تا آں کہ ممتحن اس کی یاد داشت اور تجوید پر گرفت کی تائید و تصدیق نہ کر دیں، خواہ وہ طالب علم کسی دوسرے مدرسہ کا حافظ ہی کیوں نہ ہو اور اس نے وہاں سو دور بھی مکمل کر لیا ہو؛ چنانچہ جب استاذ مزید جائزہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں تو پھر طالب علم کی صلاحیت کے مطابق اس کو یومیہ سبق کی مقدار میں اضافہ کی اجازت دیتے رہتے ہیں اور سبق کے ساتھ ساتھ دوسرے مدرسہ سے گئے ہوئے مکمل و نامکمل حافظوں کو بھی غیر حافظوں کی طرح سبق پارہ و ظہر بعد آموختہ سنانا پڑتا ہے، جس کی مقدار اس کے مکمل کیے ہوئے پاروں کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ اس طرح جب کوئی طالب علم اپنا سبق مکمل کر لیتا ہے، تب اسے حفظ دور کا جو عام طریقہ ہے اس کی اجازت دی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی اسے ختم قرآن کی مجلس میں بیٹھایا جاتا ہے اور اسے آخر سال میں جامعہ سے تکمیلِ حفظ کی باضابطہ سند بھی دی جاتی ہے۔ حفظ کے دوران جو سب سے خاص اور اہم بات وہاں ملحوظ رکھی گئی ہے وہ سبق کے ساتھ ساتھ آموختہ کی بھی پختگی ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ سبق کی پختگی پر زور دیا جاتا ہے، علاوہ ازیں بار بار مختلف عنوان یعنی سہ ماہی، ششماہی، سالانہ اور ماہانہ کے ساتھ امتحان بھی ہوتا رہتا ہے اور اسی کے نتیجے کے مطابق آگے ترقی دی جاتی ہے ۔ یعنی سبق کی مقدار میں بڑھوتری و کمی کا استاذ کی طرف سے فیصلہ ہوتا ہے۔
ان سب کے علاوہ وہاں کے حفاظ کے دور کی پختگی میں سب سے اہم رول مسابقہ کا ہوتا ہے، جس کا آغاز ہر سال ششماہی کے بعد تکمیل حفظ قرآن کی چوتھی اور سب سے آخری مجلس منعقد ہونے کے بعد ہوتا ہے ۔ یہ مسابقہ دو طرح کا ہوتا ہے، ایک عمومی اور ایک خصوصی ۔ عمومی مسابقہ کے انعقاد کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سال رواں میں جتنے بھی طلبہ حفاظ کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں ان تمام کو جمع کر کے فرع در فرع تقسیم کیا جاتا ہے اور خود مسابقہ کو بھی کل چھ مجلسوں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے، پہلی مجلس میں شروع کے صرف پانچ پارے ہوتے ہیں، اس کے بعد دوسری مجلس پورے دو ہفتے کے بعد مزید پانچ پاروں کے اضافے کے ساتھ ہوتی ہے اور اس طرح یکے بعد دیگرے بقیہ مجلسیں بھی مکمل دو ہفتوں کے وقفے اور پانچ پانچ پارے کے اضافے کے ساتھ سب سے آخری یعنی از اول تا آخر پر منتہی ہوتی ہے۔ اس عمومی مسابقہ کی تمام فروعات اور تمام مجلسوں میں تین تین ممتحن (سائل، قاری اور حکم) ہوتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے سپرد پچاس پچاس نمبر ہوتا ہے۔ پہلی مجلس (از پ ١ تا ٥) میں تین سوال اور سب سے آخری (از اول تا آخر) میں چھ سوال ہر ایک طالب علم سے کیا جاتا ہے اور وہ تمام سوالات دفتر دارالقرآن سے ہی پرچوں پر مرتب کر کے مساہمین کی تعداد کے مطابق ہر فرع میں اس کے سائل کے سپرد کیے جاتے ہیں۔
اس عمومی مسابقہ کے شروع کی پانچوں مجلس کا صرف نمبر بورڈ پر آویزاں کر دیا جاتا ہے؛ لیکن از اول تا آخر والے میں بالترتيب از اول تا پنجم پوزیشن والے کو خصوصی انعام سے نوازا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ خصوصی مسابقہ جید جداً کے عنوان سے تمام حفاظ میں سے صرف جید کے درمیان ہوتا ہے، جس کا انتخاب اساتذہ خود اپنی اپنی کلاسوں سے کرتے ہیں۔ اس مسابقہ کے لیے ممتحن باہر سے آتے ہیں اور انہیں ہر مساہم سے مکمل بارہ سوالات کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے اور جواب کے سننے کی کوئی حد متعین نہیں ہوتی ہے، یعنی ایک سوال پر مکمل ایک پارہ بھی ممتحن سن سکتے ہیں، اس میں بھی کامیاب ہونے والوں میں بالترتيب شروع کے پانچ کی بعنوان ”ممتاز“ ، ”اعلٰی“ اور ”جیدجدّاً“ وغیرہ خصوصی انعام سے حوصلہ افزائی و سرفرازی کی جاتی ہے۔ (الحمدللہ ناچیز راقم کو بھی مذکورہ بالا دونوں مسابقوں میں اول نمبر اور اس پر ملنے والے خصوصی انعام کے حصول کی سعادت حاصل ہے۔)
ان سب کے علاوہ دینی تعلیم سے جو عین مقصود ہے۔ یعنی بندہ کا اپنے خالق و معبود سے رشتہ و تعلق کو جوڑنا اور مضبوط کرنا۔ اس کی عملی تربیت کا دل پذیر نظارہ بھی حضرت خادم القرآن کے پند و نصائح، ذکر و اذکار کی مجلس اور ذمہ داران و اساتذہ کی جانب سے ہونے والی سختیوں کے نتیجے میں وہاں کے ماحول میں موجود سب سے اہم اور خاص بات صرف قابل ذکر ہی نہیں؛ بلکہ لائق تقلید و واجب العمل بھی ہے۔ یعنی طلبہ کے اندر جمیع امور سے متعلق نظام الاوقات کی پابندی، اذان کے فوراً بعد ہی مسجد میں حاضری، تکبیر اولٰی و صف اول کا بشوق و رغبت اہتمام، بالخصوص مغرب میں اذان سے دس پندرہ منٹ پہلے اور جمعہ کے دن عصر کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے سے قبل درود شریف ”اللهم صل علی محمد النبی الامی و علی آلہ و سلم تسلیما“ اسی مرتبہ پڑھنے کے بعد دینیات و حفظ کے معصوموں سے لے کر تکمیلات و تخصصات تک کے جوان و باشعور جمیع طلبہ کی اپنی انفرادی دعاؤں میں آہ و بکا اور گریہ زاری سے جس طرح پوری مسجد گونجتی رہتی ہے اور اس کی وجہ سے جیسا روح پرور و پر کیف سماں طاری رہتا ہے، وہ ناچیز کے کانوں اور اس کی آنکھوں نے اس سے قبل کبھی سنا اور دیکھا نہیں تھا۔
بیشک یہ حضرت خادم القرآن کی مذکورہ بالا حکیمانہ و مخلصانہ جہد و سعی اور شبانہ روز دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ صرف تینتالیس سال کے قلیل عرصہ میں حفظ قرآن کے اس چشمۂ صافی سے 10458 اور اس کی شاخوں سے 14631 حفاظ کرام سیراب ہو کر نکل چکے ہیں، جن کی مجموعی تعداد 24989 ہے اور امسال بھی صرف جامعہ کے دارالقرآن میں 3230 طلبہ، 115 درس گاہیں اور 131 اساتذۂ کرام موجود ہیں۔
مذکورہ بالا طالب *علم محمد شعیب محمد ارشاد انصاری* کو حفظ قرآن کی برکت سے ملنے والی قابلِ صد رشک عزت و سرفرازی اس کے علاوہ دیگر جمیع حفاظ کرام کو بھی اظہر ندوی صاحب کی زبانی اپنی خوش قسمتی پر نازاں و شاداں ہونے کا حق عطا کرتی ہے ۔
*”خوش قسمت ہوں؛“* کیوں کہ میرے سینے میں قرآن ہے
رہبر ہے قرآن سبھی کا، ہر مومن کی شان ہے