جمعیۃ علما ء ہند کی عرضی پر بڑا فیصلہ ۔یہ مدارس کے تحفظ کے ساتھ انصاف اور آئین کی جیت ہے ۔ مولانا محمود مدنی
نئی دہلی/ لکھنو، 21 اگست:اتر پردیش حکومت کی مدرسہ مخالف کارروائی پر اہم فیصلہ سناتے ہوئے آج الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے شراوستی میں سرکار کے ذریعہ بند کیے گئے 30 دینی مدارس کو فوراً کھولنے کا حکم دیا ہے اور تعلیمی سرگرمیوں پر لگی پابندی ہٹادی ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس پنکج بھاٹیہ کی بنچ نےمقدمہ (WRIC No 5521/2025) کی مکمل سماعت کے بعد دیا ہے ۔اہل مدارس کی طرف سے اس کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر مقرر کردہ وکلاء کی ٹیم نے کی جن میں سینئر ایڈوکیٹ پرشانت چندرا، ایڈوکیٹ اویرل راج سنگھ اور ایڈوکیٹ علی معید شامل تھے۔
عرضی گزاروں نے حکومت کے اُن نوٹسوں کو چیلنج کیا تھا جن میں انہیں مذہبی تعلیم دینے سے روک دیا گیا تھا اور اداروں کو سیل کردیا گیا تھا ۔متعدد دلائل کے ساتھ عرضی گزاروں کا مؤقف تھا کہ اس معاملے میں انہیں کوئی موقعِ سماعت نہیں دیا گیا ۔
اس سے قبل 7 جون 2025 کو ہائی کورٹ نے ان مدارس کے انہدام پر روک لگاتے ہوئے کہا تھا کہ تمام نوٹسوں کا نمبر ایک ہی ہے جو حکام کی بے عقلی پر دال ہے ۔شراوستی میں مدرسوں پر بلڈوزر کارروائی اور یکطرفہ اقدامات نے سخت تشویش پیدا کر دی تھی جس سے باقی اہل مدارس بھی خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ایسے حالات میں جمعیۃ علماء ہند اور مدارس کے ذمہ داران کے درمیان مسلسل رابطے ہوئے اور بالآخر 26 مدارس کی جانب سے 25مئی کو لکھنؤ بنچ میں مقدمہ دائر کیا گیا، جن میں مدرسہ معین الاسلام و دیگر بنام حکومت اتر پردیش اہم فریق ہے۔مدارس اور وکلاء کے درمیان رابطہ سازی کی ذمہ داری جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی ، جمعیۃعلماء اٹاوہ کے صدر مولانا طارق شمسی ، مولانا جنید احمد اور جمعیۃ علماء شراوستی کے جنرل سکریٹری مولانا عبد المنان قاسمی نے انجام دی۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کا بیان
جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ مدارس کے تحفظ کے ساتھ انصاف اور آئین کی جیت بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مدارس ملک وملت دونوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ادارے غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کو نکھارتے ہوئے اچھا انسان اور ذمہ دار شہری بناتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کا غیر مدبرانہ اور بدنیتی پر مبنی اقدام کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ آئین نے ہمیں دینی تعلیم کا حق دیا ہےاور اس حق کو چھیننے والی کوئی بھی حکومت آئین مخالف کہلائے گی۔ مولانا مدنی نے اس کامیابی پر مدارس کے منتظمین اور جمعیۃ کے وکلاء کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی۔
