21.7 C
Delhi
October 7, 2025
Hamari Duniya
Breaking News مضامین

سیاست داں میں پوشیدہ شاعر: پی ایم مودی کا تخلیقی پہلو

اگرچہ وزیراعظم نریندر مودی دنیا بھر میں اپنی سیاسی بصیرت، انقلابی قیادت اور دور اندیش حکمرانی کے لیے پہچانے جاتے ہیں، لیکن ان کی شخصیت کا ایک کم معروف پہلو ایک نہایت غور و فکر کرنے والے اور بے حد اظہار پسند شاعر کے طور پر سامنے آتا ہے۔
ان کی تحریریں — جو کئی دہائیوں اور زبانوں پر محیط ہیں — ایک ایسے انسان کی جذباتی، فلسفیانہ اور محبِ وطن گہرائیوں کی نایاب جھلک پیش کرتی ہیں، جسے اکثر صرف سیاست کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔
ان کی تخلیقی آواز — شاعری، مضامین اور کتابوں کے ذریعے — روحانیت، قیادت، فطرت اور حب الوطنی کے جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔
مودی کی شاعری محض ذاتی اظہار نہیں ہے — یہ ان کے عالمی نظریے، جذباتی کیفیات اور روحانی اعتقادات کا عکس ہے۔ سیاسی جدوجہد کے نشیب و فرا زسے لے کر روحانی سکون کے لمحات تک، ان کے اشعار انسانی تجربے کے وسیع ترین دائرے پر محیط ہیں۔

مودی کی شاعری میں موضوعات ۔حب الوطنی اور قومی فریضہ

مودی کی شاعری خاص طور پر اجتماعی جدوجہد اور فتح کے لمحات میں اکثر ملک کے دل کی دھڑکن کی بازگشت کرتی ہے ، ۔ ان کی شاعری میں فرض ، فخر اورہندوستان کی خودمختاری اور ترقی کے لیے غیر متزلزل عزم کا احساس پایا جاتا ہے ۔
ان کی نظموں کے کچھ اقتباسات:
1. (کرگل نظم (1999یہ سب سے پہلے گجراتی اخبارات میں شائع ہوئی ، بعد میں مودی کی تحریروں کے مجموعہ میں اسے شامل کیا گیا۔

گجراتی: “દરેકજવાનખેડૂતછે–તેભાવવવવજયનાબીજપોતાનાલોહીથીવાવેછે,જેથીઆપણોઆવતીકાલક્યારેયકરમાઈનજાય.”

• انگریزی:’’ہر جوان ایک کسان ہے-اپنے خون سے مستقبل کی فتح کے بیج بوتا ہے ، تاکہ ہمارا کل کبھی مرجھا نہ جائے ۔‘‘تبصرہ: کارگل جنگ کے دوران اسے لکھا گیا اور اس میں زرعی تصویر کو جنگ میں قربانی سے ضم کر دیا گیا ہے ۔

2. اٹھو ویر
زبان: گجراتی
موضوع: یہ نظم حب الوطنی کے مضبوط جذبے اور تحریک کا پیغام دیتی ہےاور اس میں لوگوں پر زور دیا گیاہے کہ وہ اس لمحے کی فوری ضرورت کو پہچانیں اور اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے عمل کریں ۔ (آنکھ آ دھنیا چھے)

3. وندے ماترم
زبان: گجراتی
موضوع: یہ نظم وندے ماترم کو محض ایک گیت یا نعرے سے بڑھ کر نمایاں طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی اور قومی شناخت کو ظاہر کرتی ہے۔ (آنکھ آ دھنیا چھے)

4. وجے نو پرود
زبان: گجراتی
موضوع: یہ نظم ملک کی بحالی ،اجتماعی جدوجہد اور فتح کے لئے روحانی بیداری کے جذبے کو پیش کرتی ہے۔ یہ براہ راست کسی سیاسی واقعہ یا جنگ کے بارے میں نہیں ہے ، لیکن اس کی بیداری ، لچک اور سماجی تبدیلی کا لہجہ اسے مضبوطی سے محب وطن بناتا ہے ۔ (سادھنا میگزین)

5. کارگل
زبان: گجراتی
موضوع: یہ نظم کارگل جنگ (1999) کے دوران ہندوستانی فوجیوں کی بہادری کو اعزاد بخشتی ہے ۔ یہ کارگل جنگ کو نہ صرف ایک جنگ کے طور پر ، بلکہ قومی بیداری اور ابدی شان و شوکت کے لمحے کے طور پر پیش کرتی ہے ۔ (آنکھ آ دھنیا چھے)

6. اجے شکتی ایشے
زبان: گجراتی
موضوع: اس نظم میں کہا گیا ہے کہ یہ وقت حب الوطنی کا ہے اور ایک ناقابل تسخیر طاقت موجود ہے-جسے کوئی بھی فتح نہیں کر سکتا ۔ اس قدیم ملک میں بے پناہ شجاعت اور بہادری موجود ہے اور سنگھ (سنگٹھن) میں ایک ناقابل شکست ، ناقابل تسخیر قوت پر مبنی بے پناہ طاقت ہے- (ہاتھ سے لکھی ہوئی ڈائری)

7. اٹھولال! وجے وادھو
زبان: گجراتی
موضوع: اس نظم میں مضبوطی اورتحریک حاصل کرتے ہوئے عمل کے لیے آواز دی گئی ہے ، جس میں لوگوں کو لگن اور اتحاد کے ساتھ ملک کی ترقی میں آگے بڑھنے ، کوشش کرنے اور تعاون کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ (آنکھ آ دھنیا چھے)

8. اب کیا تجھ کو ارپن کروں ؟
زبان: ہندی
موضوع: یہ نظم ملک کے لئے بے لوث خدمات کے لئے حب الوطنی اور روحانی جذبے سے سرشار ہے۔شاعر بھارت (ہندوستان) کے تئیں قربانی ، فرض اور خدمت کے نظریات کا احاطہ کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ جب سب کچھ-دماغ ، کوشش اور محنت-پہلے ہی وقف ہو چکا ہو تو اس سے زیادہ اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے ۔ (ہاتھ سے لکھی ہوئی ڈائری)

اب کیا تجھے ارپن کروں؟
تیرے حصے پائی متی
تیرے پدچہنوں سے بنے
پتھ کو ہی میں پیار کروں
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
تپتا یوون لیے
جیون یوون لیے
جیون شرنگار سے پوچھتا
میں
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
چاندی کے ٹکڑوں نے
نہ پالا ہے مجھے
اور نہ میں نے پالے ہیں
چند ٹکڑے
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
جیون پشپ بنے شرنگار
اور آشا بنے آدھار
پھر لہو بنے پسینہ
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
بس، تیرے سپنوں کا بھارتی ہی
تجھے ارپن کروں۔۔۔!

9. سوگندھ مجھے اس مٹّی کی ، میں دیش نہیں مٹنےدوں گا
زبان: ہندی
موضوع: یہ نظم نریندر مودی نے کئی مواقع پر پڑھی ہے۔
اس نظم کا بنیادی موضوع قوم پرستی، عزم و حوصلہ ہے۔ یہ گہری حب الوطنی کے جذبے اور ملک کے تحفظ و استحکام کے عزم کو بیان کرتی ہے۔ (2014 کی تقریر)

10۔ابھی تو سورج اُگا ہے
زبان: ہندی اور انگریزی
موضوع: یہ نظم نریندر مودی نے (ہندی اور انگریزی دونوں میں) کئی مواقع پر پڑھی ہے، جن میں امریکی کانگریس بھی شامل ہے ۔مجموعی طور پر یہ نظم حب الوطنی کے جذبے اور حوصلہ افزائی کا حسین امتزاج ہے، جو لوگوں کو اپنے اور اپنے ملک کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
ابھی تو سورج اگتا
آسمان میں سر اٹھا کر
گھنے بادلوں کو چیر کر
روشنی کا سنکلپ لے
ابھی تو سورج اُگاہے!!
دِرڑھ نشچے کے ساتھ چل کر
ہر مشکل کو پار کر
گھور آندھیروںکو مٹانے
ابھی تو سورج اگاہے!!
وشواس کی لو جلا کر
وِشواس کا دیپک لے کر
سپنوں کو ساکار کرانے
ابھی تو سورج اُگاہے!!
نہ اپنا نہ پرایا
نہ تیرا نہ میرا
سب کا تیز بن کر
ابھی تو سورج اُگا ہے!!
آج کو سمیٹے
پرکاش کو بکھیرتے
چلتا اور چلتا
ابھی تو سورج اُگا ہے!!
وِکرتی نے پرکِرتی کو دبوچا
اپنوں کے دھوست ہوتی آج ہے
کل بچانے اور بنانے
ابھی تو سورج اُگا ہے!!

رائزنگ ہائی ان دی اسکائی،
پیئرسنگ تھوکڈ کویرس،
ڈِیٹرمائنڈ ٹو اسپریڈ لائٹ ،
دِی سن رائز جسٹ رائزن
وِتھ ایبسلوٹ ریزولیشن ،
سرپائیزنگ ڈیفیکلٹ کنڈیشن ،
ٹو اوبلیٹریٹ ڈارکنس آراونڈ اس
دِی سن رائز جسٹ رائزن ،
ٹو اِلومنیٹ فلیم آف ہوپ،
ٹو برینگ لائٹ آف گروتھ،
ٹو ریئلائز ڈریمس دئیٹ وی چوج
دِی سن رائز جسٹ رائزن ،
نوٹ فار اس اور دیم،
نور فار می اور یو
ٹو گلو فار ون اینڈ آل ،
دِی سن رائز جسٹ رائزن ،
کولکٹنگ آل دی فائر،
ڈسپیئرنگ دئیٹ ایز لائٹ ،
ٹو اینرجز ایٹ سلف اینڈ ادرس،
دِی سن رائز جسٹ رائزن ،
وہین ایکشن اٹیکڈ اوور وے،
الائز ڈسٹروئیڈ اوور ٹوڈے،
ٹو سیو اینڈ بیلڈ اےبیٹر ٹومارو،
دِی سن رائز جسٹ رائزن ،
یومِ آزادی پر سنائی گئی نظمیں
1۔ ایک بھارت نیا بنانا ہے
زبان: ہندی
موضوع: یہ نظم فرض شناسی، جوش و جذبہ اور قومی فخر کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اس میں شہریوں، خاص طور پر نوجوانوں، کو ہندوستان کی ترقی اور مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ نظم بھارت کے خود انحصاری، عالمی قیادت اور روشن مستقبل کی جانب سفر کی عکاسی کرتی ہے، جس سے یہ ایک طاقتور قومی ترانہ بن جاتی ہے۔ (یومِ آزادی، 2018)

اپنے من میں ایک لشے لیے
اپنے من میں ایک لشے لیے
منزل اپنی پرتکشا لیے
اپنے من میں ایک لشے لیے
منزل اپنی پرتکشا لیے ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں
ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں،
ہم بدل رہے ہیں تصویریں،
یہ نویوگ ہے،یہ نویوگ ہے،
یہ نو بھارت ہے، یہ نویوگ ہے،
یہ نو بھارت ہے!
‘‘ خود لکھیں گے اپنی تقدیریں، ہم بدل رہے ہیں تصویریں،
خود لکھیں گے اپنی تقدیریں ، یہ نو یوگ ہے ، نو بھارت ہے،
ہم نکل پڑے ہیں ، ہم نکل پڑے ہیں پرن کر کے،
ہم نکل پڑے ہیں پرن کر کے ، اپنا تن من ارپن کر کے،
اپنا تن من ارپن کر کے ، ضد ہے، ضد ہے ، ضد ہے
ایک سوریہ اگانا ہے، ضد ہے ایک سوریہ اگانا ہے،
امبر سے اونچا جانا ہے، امبر سے اونچا جانا ہے،
ایک بھارت نیا بنانا ہے، ایک بھارت نیا بنانا ہے!!

2۔ یہی سمے ہے، صحیح سمے ہے، بھارت کا انمول سمے ہے
زبان: ہندی
موضوع: یہ نظم حب الوطنی، قومی بیداری اور نوجوانوں کے بااختیار ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں لوگوں کو اپنی طاقت پہچاننے اور بھارت کی ترقی میں تعاون کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ ایک پرجوش اور حوصلہ افزا پکار ہے جو اجتماعی عمل کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ لگن اور قومی فخر کے ساتھ کچھ بھی ناممکن نہیں۔ 75واں یومِ آزادی، 2021)

یہی سمئے ہے،
یہی سمئےہے۔۔۔ یہی سمئےہے، بھارت انمول سمئے ہے!
یہی سمئےہے۔۔۔ یہی سمئےہے، بھارت انمول سمئے ہے!
اسنکھیا بھوجاوں کی شکتی ہے،
اسنکھیا بھوجاوں کی شکتی ہے ، ہر طرف دیش کی بھگکتی ہے!
اسنکھیا بھوجاوں کی شکتی ہے ، ہر طرف دیش کی بھگکتی ہے!
تم اٹھو ترنگا لہرا دو ،
تم اٹھو ترنگا لہرا دو ،
بھارت کے بھاگیہ کو پھہرا دو ، بھارت کے بھاگیہ کو پھہرا دو
یہی سمئے ہے، یہی سمئے ہے، بھارت کا انمول سمئے ہے!
کچھ ایسا نہیں۔۔۔
کچھ ایسا نہیں، جو کر نہ سکو،
کچھ ایسا نہیں ، جو پا نہ سکو،
تم اٹھ جاؤ ۔۔۔
تم اٹھ جاؤ، تم جُٹ جاؤ،
سامرتھیہ کو اپنے پہنچانو۔۔۔
سامرتھیہ کو اپنے پہچانو،
کرتویہ کو اپنے سب جانو۔۔۔
کرتویہ کو اپنے سب جانو،
یہی سمئے ہے، یہی سمئےہے، بھارت کا انمول سمئے ہے!
3۔ چلتا چلتا کال چکر، امرت کال کا بھال چکر
زبان: ہندی
موضوع: یہ نظم نوجوانوں کو چیلنجز قبول کرنے، ملک کی تعمیر میں تعاون کرنے اور اپنے وطن پر فخر کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ایک متاثر کن اور حوصلہ افزا نظم ہے جو لوگوں کو بھارت کی ترقی اور عالمی سطح پر اس کے وقار کے لیے کام کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ (یومِ آزادی، 2023)

چلتا چلتا کال چکر،
امرت کال کا بھال چکر ،
سب کے سپنے ، اپنے سپنے ،
پنپے سپنے سارے ، دھیرے چلے، ویر چلے، چلے یووا ہمارے ،
نیتی سہی رِیتی نئی، گتی صحیح راہ نئی،
چنو چنوتی سینا تان، جگ میں بڑھاؤ دیش کا نام
B-سنگھ سے متعلق نظمیں

چاہتا ہوں۔۔۔
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
تیرے حصے پائی متی
اور گتی بھی پائی ہے!
تیرے پد چنہوں سے بنے
پتھ کو ہی میں پیار کروں!
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
تپتا یوون لیے ،
جیون –شرنگار سے پوچھتا
میں
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
چاندی کے ٹکڑوں نے
نہ پالا ہے مجھے
اور نہ میں نے پالے ہیں
چاندی ٹکڑے
اب کیا تجھے ارپن کروں؟
جیون –پشپ بنے شرنگار ،
اور آشا بنے آدھار ،
پھر لہو بنا پسینہ
اب کیا تجھے ارپن کروں؟ بس تیرے سپنوں کا بھارت ہی
تجھے ارپن کروں۔۔۔!

22 اپریل 1989 کو سادھنا میگزین میں شائع ہوئی

આંવધયોં કે બીચ જલ ચૂકે,
કભી
બુઝચૂકેકુછદીપथे।
ઔર ભી કુછ દીપथे, વતવમર સે લોહા લલએ થે। બહાતેબહાતેપ્રકાશ,
ચુપતોઅંધકારમેંસમાગયાથે।
પરએકદીપ- જોઆપથે- જલતે ગયે,
જલાતેજલાતે।
આંધીઆયે, વતવમર છાયે, કફરભીજલે,
જલતેગયે,જલાતેજલાતે।

અંધકાર સે ઝૂઝના થા, સાંકલ્પજોઉરમેંભરાથા। સૂરજઆનેતકજલનાથા-
બસ,
જલતે ગયે, જલાતેજલાતે।
જોજલેથે, જોજલેહૈ,
જોજલેરેછે,
બનકકરણફહરારહેહૈ, રોશની બરસા રહે હૈ।
તભીતો,
વસદ્ધિ કા સૂરજ વનકલ પડા હૈ, ચહુાંઔરરોશનીહીરોશની- રોશની હી રોશની મેં
સમાયાવહદીપ, જો આપથે।

شاکھا ہماری کام دھے نو ہے
شاکھا سے ہمیں جب چاہے، جو چاہے مل جاتا ہے۔
شاکھا سے ہمیں-
ممتا بھی ملتی ہے اور سمتا بھی
پیار بھی ملتا ہے اور پران بھی
کرم بھی ملتا ہے اور دھرم بھی
وچار بھی ملتا ہے اور آچاربھی
مان بھی ملتا ہے اور سمّان
کَوی بھی ملتا ہے اور کتھاکار بھی
چنتک بھی ملتے ہیں اور لیکھ بھی
ویر بھی ملتے ہیں اور رم تویر بھی
دانی بھی ملتے ہیں اور بلیدانی بھی
درشک بھی ملتے ہیں اور پتھ درشک بھی
منتری بھی ملتے ہیں اور سنتری بھی
وچارک بھی ملتے ہیں اور پرچارک بھی
سنگٹھک بھی ملتے ہیں اور سنگھرسک بھی
سنپادک بھی ملتے ہیں اور سنوادک بھی
کرم دھاری بھی ملتے ہیں اور چرم دھاری بھی
گیانی بھی ملتے ہیں اور وگیانی بھی
تیاگی بھی ملتے ہیں اور ویراگی بھی
جیون کو آکار بھی ملتا ہے اور دیش کو سرکار بھی
شاکھا کے دیوار ہی ہم راشٹریہ کی کامنائیں پورن کر سکتے ہیں۔

آنکھ آ دھنیہ چھ سے
من سے سمرپت ہونا
فروم آنکھ آ دھانیا چے
آکاش کو
اپنی باہوں میں لینے کو پریاس شیل
اچھلتا ساگر
میری پریرنامورتی ہے۔
یہی میرے جیون کی
شکتی اور اسمرتی ہے۔ یہ شہنائی بھی بجاتا ہے
جئے گھوس بھی
کسی پروت کی چوٹی کا
شکھر بھی یہی بتاتا ہے۔
کسی بھی کنارے پرواہ کرے،
ایسا ہے ساگر نہیں۔
اگر سیوکار کرنے کی شکتی ہو
تو۔۔۔
اپنی ہتھیلی میں
دیتا ہے شیام کے پھول
اور اس کی
لہروں کے باغیچوں کی سگندھ
پھول میں چھلکتی ہے۔
ندی کے ولے کی ویتھا
ساگر میں سما گئی ندی کو
کبھی بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔
میں پہاڑ کی طرح کھڑا رہ سکتا ہوں
اور سمندر کی طرح چھلک سکتا ہو۔
تم مجھے
کوتر بھی سکتے ہو اور
کھود بھی سکتے ہو۔
جل کی طرح
تپائی کی بال سے اتار بھی سکتے ہو۔
ہاتھ میں دھرو
سنویدنا کی کیل
اور اسنیہ کی ہتھوڑی
چھتجوں کی دیوار
آکاش کی چھت۔۔۔
منوسیوں کی بھیڑ
ہری-بھری سرشٹی
میرے گھر کا آکار
میرے من کی وستار
یہ سمست سنسار

سی۔ روحانیت اور خود کا عکس
مودی کی غور و فکر سے بھرپور شاعری ایک متلاشی روح کو ظاہر کرتی ہے — جو خلوت نشینی، روحانی تعلق اور کرم کے فلسفے سے نبرد آزما ہے۔ ان کی روحانی شاعری اکثر قدیم بھارتی حکمت سے ماخوذ ہوتی ہے اور بھگوت گیتا اور اپنشد کی تعلیمات کی بازگشت سناتی ہے۔
ان کی نظموں کے چند اقتباسات یہ ہیں:
1۔ بے رغبتی اور ازلی شاہد پر
ماخذ: ساکشی بھاو (2014) / لیٹرز ٹو مدر (2016)
گجراتی: :“પ્રારબ્ધનેઅહીંગાાંઠેકોણ?હુાંપડકારઝીલનારોમાણસછ,ાં
હુાંતેજઉછીનુાંલઉંનહીં,હુાંજાતેબળતુાંફાનસછ…ાં”
انگریزی:کون ہے جو یہاں تقدیر کو باندھ سکے؟ میں ایک ایسا انسان ہوں جو چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔ میں اُدھار کی روشنی نہیں لوں گا — میں ایک دیا ہوں جو اپنی ہی لو سے جلتا ہے۔”
تشریح: مودی اپنے آپ کو ایک‘کرم یوگی’ قرار دیتے ہیں جو چیلنجز کو قبول کرتا ہے اور تقدیر یا دوسروں کے سہارے پر انحصار کو رد کرتا ہے۔ یہ اپنشد کی روح کی عکاسی ہے — “خود اپنی روشنی ہونا”۔
2۔ دیوی سے مکالمہ
ماخذ:لیٹرز ٹو مدر (2016)
انگریزی (گجراتی فکر کا ترجمہ):“تنہائی میں سب کچھ تیرے سامنے انڈیل دیتا ہوں، اے میری ماں۔ تُو مجھے مجھ سے زیادہ جانتی ہے۔ میں اپنا چہرہ بھول سکتا ہوں، مگر تُو مجھے کبھی نہیں بھولتی۔”
تشریح: مودی اپنی شاعری کو دیوی سے— “ماں” (دیوی ماں) — کے ساتھ ذاتی مکالمہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں (روحانی طور پرخود کوپیش کرنے) کی جھلک دکھاتی ہیں، جہاں دیوی رازدار بھی ہے اور ضمیر بھی۔
3- کامیابی اور ناکامی کو گزرنے والے بادلوں کے طور پر
ماخذ:ساکشی بھاو
گجراتی: સફળતા – વનષ્ફળતા તો જીવનની યાત્રાના મીલના પથ્થર માત્રછે.યાત્રાતોચાલતીજરહેવાની.”
انگریزی:کامیابی اور ناکامی تو زندگی کے سفر میں محض سنگِ میل ہیں۔ اصل سفر تو جاری رہنا چاہیے۔”
تشریح: یہاں مودی نے سفر کی تمثیل استعمال کرتے ہوئے نتائج کو ثانوی قرار دیا ہے۔ اصل زور تسلسل، ضبطِ نفس اور ثابت قدمی پر ہے — بالکل ویسے ہی جیسے گیتا میں کرم کو پھل سے بے نیاز ہو کر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
4- باطنی رفیق پر
ماخذ:لیٹرز ٹو مدر
انگریزی (ترجمہ شدہ اقتباس):اپنے ذہن کے گوشوں میں، میں ماضی میں بہت دور تک سفر کرتا ہوں… وہ ساتھی جن کے ساتھ ہم نے دکھ جھیلے، کبھی نہیں بھولے جا سکتے۔ ہم نے وہ جدوجہد مل کر برداشت کی — آخرکار وہی سفر بن جاتی ہیں۔”
تشریح: اگرچہ یہ نظم رفاقت اور ساتھیوں کی یاد کو تازہ کرتی ہے، لیکن یہ روحانی بھی ہے — اس اعتراف کے ساتھ کہ تنہائی یا آزمائش میں بھگوان ہی اصل اور مستقل “رفیق” ہے۔ اس کا انداز مراقبہ آمیز اور عاجزی بھرا ہے، جو دکھ کو انسان کی روحانی ارتقا کا لازمی حصہ تسلیم کرتا ہے۔
5- تنہائی اور باطنی اضطراب پر
ماخذ: لیٹرز ٹو مدر (مودی کے باطنی زندگی پر نوٹ)
انگریزی: باہر کی خاموشی اندر اضطراب کو جنم دیتی ہے۔ مگر، اے ماں! تیری نگاہ میں مجھے پھر سکون ملتا ہے۔”
تشریح: یہاں خاموشی اور اضطراب کو آمنے سامنے رکھا گیا ہے، جو روحانی زندگی کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ مودی شاعری کو اپنے باطنی خلفشار کو بیان کرنے کا ایک ذریعہ بناتے ہیں لیکن اس کا حل دیوی ماں کے پاس ہی ملتا ہے۔
ڈی: فطرت اور ہم آہنگی
مودی کی شاعرانہ نظر اکثر فطرت کی طرف مڑتی ہے — نہ صرف ایک منظرنامے کے طور پر بلکہ ایک استاد، شفا دینے والے اور لچک کی علامت کے طور پر۔ ان کی نظمیں زندگی کے باہمی ربط اور فطری عناصر میں پوشیدہ حکمت کا جشن مناتی ہیں۔
ان کی نظموں کے کچھ اقتباسات ہیں:
1- موسموں کی تبدیلی پر
ماخذ:آنکھ آ دھنیہ چھے (2007)
گجراتی: :“અંતમાાંઆરાંભઅનેઆરાંભમાાંઅંત,પાનખરનાકહયેટહુકે વસાંત…”
انگریزی: “ہر اختتام میں ایک آغاز ہے — اور ہر آغاز میں ایک انجام۔ خزاں کے دل میں ایک بہار جاگتی اور گاتی ہے۔”
تشریح: مودی نے موسموں کے ازلی چکر کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ خزاں (پَنکھَر) زوال کی علامت ہے، لیکن اسی میں بہار (وَسَنت) کے پھول کھلتے ہیں، جو لچک اور تجدید کی علامت ہے۔ یہ صرف فطرت کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ امید کا استعارہ بھی ہے۔
2- زندگی کی خوبصورتی پر شکر گزاری
ماخذ: افتتاحی نظم — دھنیہ ایں آنکھ، آ دھنیہ چھے
• گجراتی: “લીલાછમ ઘાસ પર તડકો ઢોળાય અહીં – તડકાને કેમે કરીનેઝાલ્યોઝલાયનહીં.આભમાાંમેઘધનુષમ્હોરતુ,ાંફોરતુ,ાંહવામાાં રાંગનાાંવતુળુોદોરતુ…ાંજીંદગીધન્દ્યછે,ધન્દ્યછે.”
انگریزی: “یہاں ہری بھری گھاس پر دھوپ بکھرتی ہے — مگر کبھی بوجھ نہیں بنتی۔ آسمان میں قوسِ قزح کھلتی اور بکھرتی ہے، ہوا میں رنگوں کے دائرے بناتی ہے… زندگی بابرکت ہے، واقعی بابرکت۔”
تشریح: یہ نظم شکر گزاری کا ایک ترانہ ہے۔ قدرت کو کثرت اور فیاضی کے طور پر دکھایا گیا ہے، اور بار بار دہرایا جانے والا جملہ “زندگی بابرکت ہے” اس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے کہ فطرت کو دیکھنا اور محسوس کرنا بذاتِ خود ایک نعمت ہے۔
3- فطرت بحیثیت استاد
ماخذ: لیٹرز ٹو مدر (2016، گجراتی سے ترجمہ شدہ خیالات)
انگریزی: “جنگل صبر سکھاتا ہے، دریا استقامت کی سرگوشی کرتے ہیں، پہاڑ استحکام کا اعلان کرتے ہیں، اور آسمان وسعت کی یاد دلاتا ہے۔”
تشریح: یہاں مودی نے براہِ راست فطرت سے اسباق اخذ کیے ہیں۔ ہر فطری عنصر کو اخلاقی سبق کی شکل دی گئی ہے، جو ان کے اس رجحان کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ فطرت کو ایک روحانی استاد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
4- انسان اور فطرت کا تعلق
ماخذ: لیٹرز ٹو مدر
انگریزی: “کیا یہ کائنات، ٹیکنالوجی کی تلاش میں، فطرت کے دیے ہوئے خزانے کھو دے گی؟ کیا آنکھوں کے اظہار سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز ہو سکتی ہے؟”
تشریح: یہ نظم جدیدیت کی وجہ سے فطرت سے بڑھتی ہوئی دوری پر ان کی تشویش کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ سوال محض شاعرانہ ہی نہیں بلکہ پیش گوئی جیسا بھی ہے، جو ہمیں خبردار کرتا ہے کہ کہیں ہم اپنی بقا کے سہارا دینے والے فطری خزانے کو نظرانداز نہ کر دیں۔
5- فطرت کے سادہ لمحات کی خوشی پر
ماخذ: آنکھ آ دھنیہ چھے
• گجراتی: :“કોઈલનોલયગુાંજે,કેસૂડાાંનાકોનાપરઊછળેપ્રણય…ભલે લાગેરાંક,પરાંતુાંભીતરથીશ્રીમાંત–પાનખરનાકહયેટહુકેવસાંત.”
انگریزی: “کوئل گاتی ہے؛ شعلہ نما پالاش کے پھول محبت میں جھومتے ہیں… بظاہر غریب، مگر باطن میں دولت مند — کیونکہ خزاں کے دل میں بہار خوشی سے چہکتی ہے۔”
تشریح: مودی نے پرندوں کے گیت اور کھلتے پھولوں کو چھپی ہوئی خوشی اور اندرونی دولت کی علامت بنایا ہے۔ حتیٰ کہ مشکل وقت (خزاں) میں بھی فطرت حسن (بہار) کو سنبھالے رکھتی ہے۔
ای- قیادت اور وژن
ان کی نظمیں اکثر ان کی قیادت کے مزاج کی عکاسی کرتی ہیں — استقامت، دور اندیشی اور مصیبت کو طاقت میں بدلنے کی صلاحیت۔ مودی کی شاعری ان کے سیاسی وژن کو مضبوط کرتی ہے اور ان کی طرزِ حکمرانی کو ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کرتی ہے۔
ان کی نظموں سے کچھ اقتباسات ہیں:
1- باطنی قوت پر
ماخذ: ساکشی بھاو (2014)؛ ترجمہ: لیٹرز ٹو مدر (2016)
•گجراتی: :“હુાંતેજઉછીનુાંલઉંનહીં,હુાંજાતેબળતુાંફાનસ છ…ાંમારો વારસ છ.ાં”
હુાંપોતેજ
انگریزی: “میں ادھار کی روشنی نہیں لوں گا — میں وہ چراغ ہوں جو اپنی ہی لو سے جلتا ہے۔ میں اپنا ہی وارث ہوں، میں خود اپنی میراث ہوں۔”
تشریح: یہ اعلان خود انحصاری کا ہے، جو ان کی سیاسی شخصیت میں عزم اور آزادی کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
2۔ آزمائشوں کے ذریعے تعمیر پر
ماخذ: لیٹرز ٹو مدر
انگریزی: “جدوجہد کے نشانات بوجھ نہیں بلکہ مستقبل کی طاقت کی بنیاد ہیں۔ ہر زخم نے میرے اندر ایک نیا راستہ تراشا ہے۔”
تشریح: یہاں جدوجہد کو ترقی کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ مودی مشکلات کو قیادت کے وژن کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں — زخموں کو رکاوٹ نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کے زینے کے طور پر۔
3- حال سے آگے کا وژن پر
ماخذ: ساکشی بھاو
• گجراتی: “આજના કષ્ટો કાળની કાાંતી છે, આજની અંધારી રાત આવતી કાલનુાંસૂયોદય છે.”
انگریزی: “آج کی سختیاں کل کی روشنی ہیں؛ آج کی اندھیری رات آنے والے دن کا اگتاسورج ہے۔”
تشریح: یہ اشعار واضح طور پر مستقبل بینی اور دور اندیشی کی عکاسی کرتے ہیں — مشکلات کو ایک روشن اجتماعی مستقبل کی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ یہ ان کے سیاسی وژن کی جھلک ہے، جو طویل المدتی تبدیلی کے لیے صبر اور ثابت قدمی پر زور دیتا ہے۔
نریندر مودی کی شاعری محض فنونِ لطیفہ میں ایک مشق نہیں ہے — یہ ایک ایسے رہنما کی روح میں جھانکتی ہے جو حکمرانی کو وقار کے ساتھ، حکمت عملی کو حساسیت کے ساتھ اور طاقت کو شاعری کے ساتھ توازن میں رکھتا ہے۔ آج کے دور میں جب تقریریں اور نعرے سیاست پر حاوی ہیں، ان کے اشعار یاد دلاتے ہیں کہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں کے پیچھے ایک چھپا ہوا شاعر بھی موجود ہے — جو خاموشی سے ایک قوم کی روح اور ایک انسان کے سفر کو قلمبند کرتا ہے۔
ان کی ادبی کاوشیں صرف اپنے فنی حسن کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس لیے بھی اعتراف کے قابل ہیں کہ وہ لوگوں کو متاثر کرنے، سوچنے پر مجبور کرنے اور بھارتی عوام کے جذباتی مرکز سے جڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جیسے جیسے بھارت ترقی کرتا جا رہا ہے، مودی کی شاعری الفاظ کی اس ابدی طاقت کی گواہی دیتی ہے جو دلوں اور ذہنوں کو ڈھال سکتی ہے۔

The Poet Behind the Politician: PM Modi’s Creative Side

Related posts

گنگٹوک میں بی 20 میٹنگ کا انعقاد، سکم کی آرگینک فارمنگ سے آگاہ ہوئی دنیا 

Hamari Duniya

سپریم کورٹ سے جمعیة علماءہند کو ملی ایک اور بڑی کامیابی ،اس معاملے میں 13مسلم نوجوانوں کو ملی ضمانت

Hamari Duniya

مودی حکومت جان بوجھ کر اڈانی گروپ کو فائدہ پہنچا رہی ہے، راجیہ سبھا میں خوب گرجے کھڑگے

Hamari Duniya