تل ابیب،21مارچ۔ ہزاروں اسرائیلی مظاہرین نے وزیر اعطم نیتن یاہو کے خلاف اکٹھے ہو کر جمعرات کے روز سخت احتجاج کیا ہے۔ یہ مظاہرین شین بیت چیف کی برطرفی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ شین بیت سربراہ کے حق احتجاجی مظاہروں کا تیسرا دن تھا۔اسرائیلی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ‘واٹر کینن’ استعمال کیے اور متعدد کو حراست بھی لے لیا۔ یہ ہزاروں مظاہرین جمعرات کے روز تل ابیب میں نیتن یاہو کی رہائش کے قریب پہنچ گئے تھے۔پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والے درجنوں مظاہرین نے سیکیورٹی کی ضرورت کے لیے قائم کردہ رکاوٹوں کو توڑنے کی کوشش کی۔
شین بیت کے چیف کی برطرفی کے علاوہ یہ مظاہرین اس وجہ سے بھی احتجاج کر رہے تھے کہ اسرائیلی قیدیوں کی غزہ میں دوبارہ جنگ شروع ہوجانے کے خلاف بھی احتجاج کر رہے تھے۔یروشلم میں 59 سالہ رینات حداشی نے کہا ہم بہت بہت پریشان ہیں کہ اسرائیل ایک آمریت والی ریاست بن رہا ہے۔ ہمارے آمر حکمران اسرائیلی قیدیوں کو بھی برباد کر دینا چاہتے ہیں۔وہ ملک کی ہر اہم چیز کو نظر انداز کر رہے ہیں۔یاد رہے اس ہفتے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کا شین بیت پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ جو 2021 سے شین بیت کا سربراہ چلا آرہا ہے۔ اس لیے میں اسے برطرف کر دوں گا۔ نیتن یاہو کے اس اعلان پر احتجاج شروع ہو گیا ، مگر یاہو نے شینبیت کے سربراہ کو ہٹا دیا۔اس سے پہلے کئی ماہ تک نیتن یاہو کے کئی ساتھیوں کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے ایشو پر تنازعہ چلتا رہا۔ یہ تحقیقات نیتن یاہو کے دفتر رشوت کی پیش کش کے سلسلے میں ہیں۔ جن کا قطر سے تعلق جوڑا جارہا ہے۔ کہ قطر سے منسلک شخصیات نے وزیر اعظم کے دفتر کے کئی معاونین کو رشوت کی پیش کش کی تھی۔لیکن شین بیت کوہٹائے جانے کی وجوہات در اصل سیاسی بنی ہیں۔ لیکن اس پر نیتن یاہو کے مخالفین ان پر سخت تنقید کر رہے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے اداروں اور جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔شین بیت کی طرف سے حکومت کے لیے تقسیم اکیے گئےایک خط میں شین بیت نے اپنی برطرفی کے اقدام کو بے بنیاد اور بلا جواز قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے شین بیت کے سربراہ اس سے پہلے ایک بار خود بھی اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر چکے تھے مگر انہوں اپنا عہدہ چھوڑنے کی وجہ سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے میں شین بیت کی ناکامی بتائی گئی تھی۔جمعرات کو شین بیت کی برطرفی کے خلاف سخت غصے پر مبنی رد عمل سامنے آیا جس نے نیتن یاہو کے 2022 کے اواخر میں انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے بر سر اقتدار آنے سے پیدا ہونے والی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ عوام اور حکومت کے درمیان تقسیم گہری ہو چکی ہے۔حتیٰ کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے سے ہزاروں اسرائیلیوں نے ریگولر مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے حکومت کی طرف سے عدلیہ کو کچلنے کی کوششوں کے خلاف ہوتے رہے۔ کہ نیتن یاہو عدلیہ کے اختیارات کم کر دینا چاہتے ہیں۔جمعرات کے روز یائر گولان سابق ڈپٹی چیف آف سٹاف جو اب اپوزیشن کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا حصہ ہیں۔ انہیں ایک ہجوم میں دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا اپوزیشن رہنماوں نے مطالبہ کیا ہے۔سابق وزیر دفاع بین گانٹز کا اس تصادم کے واقعات کے حوالے سے کہا ‘یہ واقعات براہ راست تقسیم کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ایک انتہا پسند حکومت کی وجہ سے تل ابیب کا کنٹرول کمزور ہو گیا ہے۔دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی جنگ کے بعد سے مسلسل عوامی احتجاج جاری ہیں۔ ان مظاہرین میں قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کوششیں کرنے والے اہل خانہ کا فورم غیر معمولی طور پر متحرک ہے۔
