بنگلورو(ایچ ڈی نیوز)۔
کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر نلین کمار کتیل نے شدت پسندانہ بیان دے کر اپنے لئے مصیبت پیدا کرلی ہے۔ اب انہوں نے میسور کے 18ویں صدی کے حکمران ٹیپو سلطان کے بارے میںنہایت ہی بے ہود تبصرہ کیا ہے جس سے تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔کتیل نے بدھ کو ایک میٹنگ میں کہا’ٹیپو سلطان کے تمام پرجوش حامیوں کو زندہ نہیں رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیپو سلطان کی اولادوں کو کھدیڑ کر جنگلوں میں بھیج دیا جانا چاہئے۔
کتیل نے کہا، ’ریاست کے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ بھگوان رام اور ہنومان کے بھکت چاہتے ہیں یا ٹیپو کی اولاد۔ میں بھگوان ہنومان کی سرزمین سے چیلنج کرتا ہوں کہ ٹیپو سے محبت کرنے والوں کو یہاں نہیں رہنا چاہئے۔ جو بھگوان رام کے بھجن گاتے ہیں اور بھگوان ہنومان کے حامی ہیں انہیں صرف یہاں رہنا چاہئے۔اس مہینے کے شروع میں کتیل نے یہ دعویٰ کرکے تنازعہ کھڑا کیا تھا کہ ریاست میں آئندہ اسمبلی انتخابات ’ٹیپو بمقابلہ ساورکر‘ پر لڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا’انہوں نے (کانگریس) ٹیپو جینتی منانے کی اجازت دے دی، جس کی ضرورت نہیں تھی۔ ساتھ ہی پارٹی نے ساورکر کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہیں۔
میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کا مسئلہ کرناٹک کی سیاست میں ایک پولرائزکا معاملہ بن گیا ہے۔ ٹیپو سلطان بمقابلہ ہنومان بحث بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈر اور یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے 2018 کے کرناٹک انتخابات میں شروع کی تھی۔ اپنی ایک انتخابی ریلی میں کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے، یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ کرناٹک ’ہنومان کی سرزمین‘ ہے، جس پر سابقہ وجے نگر سلطنت کی حکومت تھی۔
ریاست میں شدت پسند ہندو ٹیپو سلطان کو ایک سخت ظالم کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے ہزاروں لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کیا۔ اس وقت کی سدارامیا حکومت نے مسلسل دو سال تک ٹیپو جینتی منائی تھی۔ سدارامیا حکومت کا کہنا تھا کہ ٹیپو سلطان ایک مجاہد آزادی تھے۔ تاہم بی جے پی اور شدت پسند ہندو تنظیمیں اس کی سخت مخالفت کرتی رہی ہیں۔