33.7 C
Delhi
July 22, 2025
Hamari Duniya
مضامین

ارتداد اور طالبات کی تعلیم

Muslim teacher

Noorullah Khan

 

 

 

 

تحریر:نوراللہ خان

اس وقت ارتداد کا مسئلہ سب کے سامنے ہے جو ایک سنگین امر ہے۔ اس میں اہم کمی تربیت کی ہے۔ یہ مسلک نہیں تربیت کا مسئلہ ہے۔ جاکر تھانوں میں دیکھئے تیز اور دھیرے آمین سب کا گھرانہ اس سے متاثر ہے۔ تربیت ہے ہی نہیں اور نہ ہی احساس بیدار کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے نام پر فیشن اور ایڈوانس بنانے کا کام جاری ہے۔ وہیں پڑھکر فورا دو تین سال دوہزار تنخواہ پر پڑھانے والی استانی جو ابھی شعبان میں طالبہ تھی ، کیسے وہ شوال میں اچھی مربیہ اور محسنہ بنکر استانی بن جائیگی؟

اس قدر ان کی تنخواہ کم ہوتی ہے کہ شادی کے بعد کوئی شوہر ان کو پڑھانے کا موقع نہیں دیتا ہے ۔ جبکہ صلاحیت دوران تدریس مسلسل مطالعہ سے آتی ہے اور تب ایک اچھا استاد یا معلمہ تربیت کے لائق ہوتا یا ہوتی ہے۔ ننانوے فیصد نسواں مدارس میں بزرگ خواتین استانیوں کی شدید کمی ہے۔ حدیث کے لئے ایک دو ریٹائرڈ بزرگ مرد ہوتے ہیں وہ پردے کے ساتھ فارملٹی پورا کرکے چلے جاتے ہیں۔ وہ تدریس کا کام اچھا انجام دے سکتے ہیں مگر بچیوں میں کوئی خاتون ہی پردے کے مسائل پر بیٹی کی طرح تربیت کرسکتی ہے اور شوہر بیوی کی آپسی مفاہمت، غیرت اور عائلی زندگی کے مسائل کو وہی بتا سکتی ہے۔
بہت قریب سے ان مسائل کو میں دیکھ رہاہوں۔ حق بات کہنے والے ندارد ہیں اور نہ ہی بیماری کی تشخیص کرکے اسکے حل کیلئے کوئی سنجیدہ ہے۔مدارس والے ہی نہیں عوام ہی کمینی ہے۔ ان کو مفت یا برائے نام ہی سب کچھ چاہئے تو کہاں سے کوئی معیار دے گا۔ معیار کیلئے قربانی چاہئے۔ سب سے بڑا مسئلہ مکاروں اور کنجوسوں کا ہے جو باحیثیت ہوکر بھی بخیلی کرتے ہیں ۔ یہ اگر بھرپور فیس ادا کریں تو مدارس والے غریبوں کے ساتھ رعایت بھی کریں تب بھی اچھی باصلاحیت ٹیم تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کرسکتی ہے۔ مگر طلبہ ہوں یا طالبات ہر جگہ تعلیم وتربیت کا نظام چوں چوں کا مربہ اس لئے بناہوا ہے کہ عوام سب کو پریشانی کرتی ہے۔

رعایت پاکر بھی چھ چھ ماہ تک حاجی نمازی لوگ حیلہ بہانہ کرتے ہوئے دماغ کھاجاتے ہیں۔ جیب میں پیسے لیکر گھومتے ہیں اور فیس ادا نہیں کرتے اس لئے انتظامیہ پریشان ہوکر کئی کام غلط کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ مجبورا اسے چار کی جگہ دو ہی نگراں ، چھ کی جگہ چار ہی مدرس رکھنا پڑتا ہے۔ بے غیرت والدین کا احساس مفقود ہے۔ وراثت نہ دیکر صرف جہیز بچانے یا کسی طرح سماج کی رسم ادا کرنے کیلئے زیادہ تر نسواں دلن سازی کے اڈے بن رہے ہیں۔ بس کچھ سلیقہ آجائے اس چکر میں حالت ارتداد تک چلی گئی ہے۔ موبائل ہے فیش کا ماحول ہے۔ اس میں مستقبل بھی ہے۔ حساس بچیاں مسلم بے روزگار نوجوانوں کو دیکھ کر بھی مایوس ہیں۔

رشتے کے انتخاب میں برملا جھوٹ بولنا عام بات ہے۔ جو لڑکی دو سال میں دو ماہ صرف مدرسہ گئی ہے اسے بھی عالمیت کی فارغہ بتاکر شادی کردی جاتی ہے۔ دس پاس ہے اور بڑی سلیقہ مند ہے۔ یہ بات خوب بتائی جاتی ہے۔ تعریف کے پُل باندھے جاتے ہیں مگر والدین خود جہاں نماز اور قرآن کو آؤٹ سورس کرتے ہوںں ، جہاں مسلک حاوی ہو جہاں سارے گناہ کرکے مسجد پر مسلکی نام لکھ کر ہی جنت کا حصول مقصد حیات بن گیا ہو جہاں ذات پات برہمنوں کی طرح ہمارے اندر سرایت کرگیا ہو جہاں گناہ کبیرہ کرکے ہم آمین پر بات کرتے ہوں جہاں رشوت کھاکر دوسرے مسلک کو گالی دے کر اس رشوت کی رقم کا کھانا ہضم ہوتا ہو وہاں اخلاق واقدار کہاں سے جنم لیں گے؟

نسواں کے نصاب کو دیکھئے ایک امور خانہ داری چھوڑکر سارے وہی مضامین اسی انداز میں ہیں جو طلبہ مدارس کو پڑھائے جاتے ہیں جبکہ عملا دونوں کا کام موجودہ سماج میں بالکل الگ ہے۔ اس وقت نسوان مدارس میں تاریخ، سیرت صحابیات، ان کی زندگی کے واقعات کا خصوصی مطالعہ کرتے ہوئے مسابقہ کرایا جائے۔ اچھا نصاب چلا یاجائے۔ زیادہ فوکس ایک مثالی خاتون کی عائلی زندگی پر ہو۔ ایک بچی کل مختلف کردار میں کیسے ایڈجسٹ کرے گی اور کیسے الگ الگ کردار کو نبھائے گی یہ اہم کام ہونا چاہیے ۔

اچھی کتابوں کا مطالعہ کیسے ہوگا جبکہ اچھی لائبریری نہیں ہوگی۔ مشرقی آنچل جیسے میگزین کردش کرتے ہیں۔ اچھے میگزین نہ نکالنا چاہتے ہیں نہ ہم کسی اور کی اچھی میگزین پڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ موجدہ تعلیمی ماحول فیشن کی جانکاری کیلئے ماحول سازی کا کام کررہا ہے۔ ایک لڑکی کو کم یا زیادہ یا خراب مالی پوزیشن میں کیسے شوہر کے ساتھ قناعت کے ساتھ جینا ہے اس پر کوئی تربیت نہیں ہے اس لئے تعلیم یافتہ یا جاہل لڑکی میں کوئی فرق کم ہی نظر آتا ہے۔ نسواں کے فوائد کم نظر آتے ہیں اس کی وجہ معیاری تعلیم کے کساتھ معیاری اور اعلیٰ اخلاقی تربیت کے بے حد کمی ہے۔
گھروں میں سیریل یا موبائل کی آزادی ہے اور زیادہ تر گھرانوں میں عورتوں کی آپسی چپقلش ہے۔ بے جا رسم ورواج کا ماحول ہے۔ بہتر مثالی زندگی کے بجائے ماں باپ بھی بس کسی طرح بوجھ اتارنے کے چکر میں رہتے ہیں جسکی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اصلاح کیسے ہو، یا تو ذاتی ادارے ہیں جہاں من مانی ہے یا پھر عوامی ادارے ہیں جہاں “ناظم ہٹاؤ “اور “نیا ناظم بناؤ “یہی ابھیان چلتا رہتا ہے۔ عوام کو بھی مفت یا بس برائے نام فیس دیکر کسی طرح بچی کا نکاح کرکے سر کا بوجھ اتارنا ہے تو شعور کہاں سے آئے گا جو عوام سوالات کرسکے۔ اور شعور کہاں سے آئے گا جہاں رات دن دوسرے مسلک کو گالی دینا ہی نیک کام رہ گیا ہے باقی اپنی بچی غیروں کے ساتھ سگائی کرلے یہ اب تک موضوع گفتگو نہیں سکا ہے یا جو اہمیت اسے ملنی چاہئے وہ نہ مل سکی ہے۔ درحقیقت جن مسائل میں مفاد پرست مولوی ٹولے کا فائدہ نہیں ہے اس پر وہ خاموش رہیں گے چاہے ملت برباد نہیں معدوم ہوجائے۔ ان کے خرافات نے ہی ملت کو منتشر کیا ہے۔ حلوہ اور آمین سے ہوتے ہوئے حلالہ اور اب ارتداد تک معاملہ آگیا ہے مگر کبھی ان کو احساس نہیں ہوا کہ مسلکی انا پرستی چھوڑ کر ملت کے مشترکہ مسائل پر یکجا ہوکر کام کیا جائے۔ اللہ ہدایت دے ، اپنے باپردہ اسکولی نظام کی توفیق سے نوازے اور عوام کو ازخود تربیت اور پردے کی توفیق عطاکرے۔ آمین

Related posts

بدلتا ہندوستان اور مسلمانوں کا خوفناک مستقبل

Hamari Duniya

یوپی کے غیر تسلیم شدہ مدارس کو باقاعدہ کیا جائے

Hamari Duniya

ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات

Hamari Duniya