سہارنپور(احمد رضا ؍ ایچ ڈی نیوز)۔
سہی معنوں میں پولیس نے من مانی یا سیاسی دباؤ میں بہت کچھ ایسا کر دکھایا کہ جو سراسر خلاف آئین کہا جاتا ہے مگر سیاسی دباؤ کے چلتے سینئر افسر بھی پولیس کی حرکات پر اکثر تماشائی بن کر رہ جا تے ہیں بعد میں اس طرح کے حسّاس معاملات کورٹ پہنچتے ہیں تو پھر کافی مشقت کے بعد عام آدمی کو انصاف مل تا ہے۔ ایسا ہی نوجوان ذیشان حیدر کے معاملہ میں بھی ہونے جا رہا ہے۔ بہ مشکل دو سال بعد یہ معاملہ بھی لائق عدالت کے سامنے لایا گیا ہے جس پر قابل جسٹس نے جواب طلب کر لیا ہے۔
ذیشان حیدر کے اہل خانہ کی ہمت ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کے لئے آلہ آباد ہائی کورٹ لیکر گئے اور پولیس کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی ، آپ کو بتادیں کہ بانچ ستمبر 2021 کو پولیس حراست میں ہوئی ذیشان حیدر کی موت ایک بار پھر سے سرخیوں میں آگئی ہے۔ ضلع کے سبھی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ضلع کی بڑی تحصیل دیوبند کے ایک گاؤں تھیتکی کے رہنے والے مسلم نوجوان ذیشان حیدر کی پولیس کسٹڈی میں ہوئی موت کا معاملہ دو دن قبل ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے۔ نوجوان ذیشان حیدر کی موت کے معاملہ میں ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی حکومت سے اس واقعہ سے متعلق کاروائی کئے جانے کی بابت تین ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے جو اتر پردیش پولیس کی کارکردگی کو سمجھنے کے لئے بہت کافی ہے۔
واضح ہو کہ تحصیل دیوبند کے گاؤں تھیتکی گاﺅں کی ساکن مقتول ذیشان حیدر کی اہلیہ افروز نے تبھی یہ الزام عائد کیا تھا کہ 5ستمبر 2021 کی رات میں مقامی پو لیس نوجوان ذیشان حیدر کو گھر سے بلا کر لے گئی تھی اور پھر اگلے دن صبح پولیس والوں نے ہی گھر آکر یہ اطلاع دی تھی کہ ذیشان حیدر کی موت واقع ہو گئی ہے پو چھ۔ تا چھ کرنے پر پولیس نے زیشان کے اہلخانہ خانہ کا بے وقوف بناتے ہوئے ادھرادھرکی باتیں ٹال مٹول کر تے ہوئے کی اور چلتے بنے جس پر اہل خانہ کے دل میں پولیس کے خلاف لگاتار شک اور شبات پیدا ہونے لگے مجبوری اور انصاف نہ ملنے کے باعث اہل خانہ کی ہمت سے اب یہ معاملہ ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے۔
اس سلسلہ میں پولیس کا کہنا تھا کہ گا ﺅ کشی کی اطلاع ملنے پر پولیس تھیتکی کے جنگل میں کاروائی کرنے کے لئے پہنچی تھی، وہاں موجود ذیشان حیدر پولیس کو دیکھ کر بھاگنے لگا اور اس دوران اس کے اپنے ہی طمنچہ سے چلی گولی اس کے پیر میں لگی تھی ، پولیس کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی تھی، جب کہ افروز نے تین ایس آئی سمیت 13پولیس اہلکاروں پر اپنے شوہر کا قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا اس سلسلہ میں مرکزی اور صوبائی حکومت سے پورے معاملہ کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن حکومت نے جانچ کرانے کے لئے کوئی کاروائی نہیں کی، جس کے بعد ذیشان حیدر کی اہلیہ افروز نے ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ ذیشان حیدر کے تایہ زاد بھائی سید عیسیٰ رضا نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے اب تک کی پوری کاروائی سے متعلق صوبائی حکومت سے جواب طلب کیا ہے اور اس کے لئے تین ہفتوں کا وقت سرکار کو دیا گیا ہے۔