دہلی ہائی کورٹ نے آن لائن پورٹل پر آپشن کی کمی کو لے کر حکومت کو دیا سخت حکم
نئی دہلی،19جولائی(ایچ ڈی نیوز)۔
دہلی ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو لازمی میرج رجسٹریشن آرڈر 2014 کے تحت مسلم اور عیسائی شادیوں سمیت شادیوں کے آن لائن رجسٹریشن کو فعال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے، آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ (اے آئی ای ایم) کے صدر اور مانو یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ ایم شاہد نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، انہوں نے اس فیصلے کو ملک کے جمہوری سماجی تانے بانے کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔ یہ بھی بتایا کہ ہر سال ہماری تنظیم اے آئی ای ایم کی قانونی ٹیم جس میں سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ اسلم احمد، دہلی ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ رئیس احمد اور دیگر قانونی ماہرین شامل ہیں، نے ایسے مسائل پر بیداری کے پروگرام منعقد کرتی رہتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جسٹس سنجیو نرولا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوام کے لیے آسان انتظامی عمل کو یقینی بنانے کے لیے پورٹل پر اس طرح کے رجسٹریشن کا آپشن فراہم کرنا ضروری تھا۔ لیکن 2021 میں شادیوں کے بارے میں حکام کی طرف سے پہلے کی یقین دہانیوں کے باوجود، دہلی (شادی کا لازمی رجسٹریشن) آرڈر 2014 کے تحت ہونے والی شادیوں کے رجسٹریشن کے لیے آن لائن یا آف لائن، خاص طور پر مسلم پرسنل لا یا کرسچن پرسنل لاءکے تحت کوئی متبادل نہیں دیا گیا۔ جسے عدالت نے ”نظام کی ناکامی“ قرار دیا۔ آپ کو بتادے کہ عدالت نے یہ حکم 1995 میں شادی کرنے والے ایک مسلمان جوڑے کے اپنے مذہب کے تحت شادی کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنے پر عدالت سے رجوع کرنے والے اس مسئلے کے حل کے طور پر دیا ہے۔
مسٹر شاہد نے اپنے پریس بیان میں بتایا کہ یہ مسئلہ ان کے اپنے بیٹے کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جب ان کے بیٹے کو بیرون ملک جانے کی ضرورت پڑی تو انہیں دہلی حکومت کے میرج رجسٹریشن پورٹل پر دستیاب آپشنز کا انتخاب کرنا پڑا جس میں صرف ہندو میرج ایکٹ اور اسپیشل میرج ایکٹ کے آپشنز دستیاب تھے اور ان کے بیٹے کو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونا پڑا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت مسلم اور عیسائی شادیوں کے رجسٹریشن کی وجہ سے ان خاندانوں کو مستقبل میں ان کے ذاتی قوانین کے تحت جائیداد کی تقسیم وغیرہ جیسے معاملات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا اب امید ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ پورٹل پر ان لاین آپشن کو اپ ڈیٹ کرکے اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں مددگار اور ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔ لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پرانے رجسٹریشن کا اب کیا ہوگا؟ کیا ان لوگوں کو دوبارہ رجسٹر کرنا پڑے گا؟ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں ہیں جنہیں ایسے اہم فلاحی کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں ایسا کام نہیں ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کو لے لیں جو دہلی میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کے اتنے اہم قانونی مسئلے پر کوئی کام نہیں کر سکا۔