بیس سال قبل پولیس تشدد میں ہوئی بیٹے کی موت معاملے میں 74 سالہ ماں کی بامبے ہائی کورٹ میں انصاف کی فریاد۔
نئی دہلی،ممبئی،16جنوری :۔
’ایک ماں کو صرف اپنابچہ چاہئے،انہوں نے میرے معصوم بیٹے کو مار ڈالا ،کیا انہیں سزا نہیں ملنی چاہئے؟میرا بچہ انصاف کا حقدار ہے۔میرے بیٹے کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہئے‘۔یہ فریاد ہے 74 سالہ بیمار آسیہ بیگم کی۔20 سال قبل پولیس حراست میں اپنے بیٹے کی موت کے معاملے میں انصاف کی فریاد کرتے ہوئے آسیہ بیگم نے ایک بار پھر بامبے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر کے چار پولیس اہلکاروں کے نام ملزم کے طور پر شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس کیس میں موجودہ اسپیشل پبلک پراسیکوٹر گھرات چوتھے وکیل ہیں ، میراجکر تیسرےوکیل تھے۔ میراجکر کو اس کیس سے باہر کر دیا گیا تھا جب انہوں نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں چار پولیس والوں کو اس کیس میں ملزم کے طور پر شامل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ2002میں گھاٹ کوپر بم دھماکہ کے الزام میں یونس کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ جبکہ پولیس کا یہ دعویٰ تھا کہ کورٹ کے حکم کے بعد CIDانکوائری کے لئے اورنگ آباد لاتے ہوئے یونس پولس کسٹڈی سے فرار ہو گیا تھا ،لیکن یونس کے والد نے ہائی کورٹ میں داخل درخواست میں کہا تھا کہ اصل میں پولیس کی کسٹڈی کے دوران یونس کی موت واقع ہوئی ہے۔جسکی جانچ کے بعد تقریباً 14پولیس اہل کار کے نام سامنے آئے تھے لیکن حکومت نے صرف 4کی انکوائری کی اجازت دی تھی جس میں سچن وازے، راجندر تیواری، راجہ رام نکم اور سنیل دیسائی کے نام شامل تھے۔
خواجہ یونس کی ماں آسیہ بیگم نے کہا کہ ایک ماں اپنے بیٹے کے لیے لڑنے کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہے۔ ہم لڑنا چاہتے ہیں لیکن پراسیکیوشن ہمارے کیس کو بہتر طریقے سے نہیں لڑ رہا ہے ۔ ریاست ہمیں اپنی مرضی کا پراسیکیوٹر نہیں دے رہی۔ ہم نے دھیرج میراجکر کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اسے ٹھکرا دیا گیا۔ انہوں نے ہم سے نہیں پوچھا اور پی پی کی تقرری کر دی گہے ہے۔ اچھا سرکاری وکیل ہو تو ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔ اب 20 سال ہو گئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’انہیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور انصاف ہوگا، آج نہیں تو کل ہوگا۔ میں آخری سانس تک لڑوں گی۔