وصی اللہ مدنی
ارکان اسلام میں سے ایک عظیم رکن رمضان المبارک کا روزہ رکھنا ہے، جو ہر مسلمان بالغ، عاقل اور مستطیع و مکلف پر فرض ہے، لیکن افسوس رمضان کا یہ مبارک و مقدس مہینہ جیسے ہی ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوتا ہے، ہم میں سے کچھ نام نہاد مسلمان اس عظیم الشان مہینے کے تقدس و عظمت کا علانیہ طور پر مذاق اڑاتے ہیں، صحت و تندرستی کے باوجود سستی و کاہلی کی وجہ سے روزے نہ رکھ کر اس مہینے کی حرمت و عظمت کو پامال کرتے ہیں۔ ایسے بدنصیب لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس و عمل کا محاسبہ کریں، اللہ سے ڈریں اور اس کے شدید ترین عذاب کا انتظار کریں، بغیر معقول عذر کے روزہ چھوڑنے پر احادیث نبوی میں شدید وعید آئی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی شرعی رخصت (سفر وغیرہ) اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دے تو پھر اگر وہ پوری زندگی روزے رکھتا رہے تو وہ اس ایک دن کے روزے کے اجر و ثواب کو نہیں پا سکتا۔“
اس حدیث کو امام احمد نےاپنی مسند میں (٣٨٦/٢ح ٩٠٠٢) امام ترمذی نے اپنی سنن میں (٧٢٣) امام أبوداود نے اپنی سنن (٢٣٩٧،٢٣٩٦) امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (١٦٧٢) امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری، كتاب الصوم، باب إذا جامع في رمضان ٢٩ قبل ح ١٩٣٥،تعليقاً) روایت کیا ہے۔
امام ترمذی نے فرمایا: میں نے محمد یعنی امام بخاری کو فرماتے ہوئے سنا: میں ابالمطوس روای کو اس حدیث کے علاوہ نہیں جانتا کہ اس نے کوئی اور حدیث بھی روایت کی ہو۔
سلسلہ إسناد میں أبوالمطوس، لين الحديث ہیں اور ان کے والد مجہول۔
شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “اس کی اسناد ضعیف ہے۔
امام قرطبی، امام دمیری، امام بغوی، امام ذھبی، امام ابن حزم، حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ البانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور مضطرب ہے، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
ائمہ اسلام نے بھی روزہ نہ رکھنے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے اور واجب القتل کا فتویٰ دیا ہے:
* امام ذہبی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب “الکبائر” میں لکھتے ہیں :”مومنوں کے ہاں یہ بات مقرر شدہ ہے کہ جس نے بھی بغیر شرعی عذر اور مرض کے رمضان المبارک کا ایک بھی روزہ ترک کیا تو وہ زانی اور شرابی سے بھی زیادہ برا اور شریر ہے، بلکہ اس کے اسلام میں بھی شک کیا جاتا ہے اور اسے زندیق اور گمراہ شمار کرتے ہیں-
* شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:”اگر کوئی شخص رمضان میں روزے نہ رکھے اور اسے اپنے لیے حلال سمجھے، حالاں کہ اسے اس کی حرمت کا علم بھی ہو تو اسے قتل کرنا واجب ہے اور اگر وہ فاسق شخص ہے تو اسے رمضان میں روزہ نہ رکھنے پر سزا دی جائے گی اور سزا کا تعین حکمران کی صواب دید پر ہوگا۔اور اگر اسے روزوں کی فرضیت کا علم ہی نہیں ہے تو پھر اسے سمجھایا جائے گا” انتہی (الفتاوى الكبرى)
اسی طرح امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:”140 -141 واں کبیرہ گناہ: رمضان میں روزے نہ رکھنا، یا رمضان میں جماع وغیرہ سے روزہ توڑ دینا، حالاں کہ سفر یا بیماری کی صورت میں کوئی عذر بھی نہ ہو” انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:”بغیر کسی شرعی عذر کے مکلف شخص کی جانب سے رمضان میں روزہ چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے۔انتہى
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: “رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑنے والا بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، چوں کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہوتی ہے، اس لیے اسے سچے دل کے ساتھ توبہ کرنی چاہیے، اپنے کیے پر پشیمان ہو اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے، اللہ تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ بخشش مانگے اور جس دن کا روزہ اس نے چھوڑا ہے اس کی جلد از جلد قضا دے۔” انتہى
شیخ محمد بن صالح العثيمين عثیمین رحمہ اللہ سے رمضان میں بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: “بغیر عذر کے رمضان کا روزہ چھوڑنا کبیرہ ترین گناہ ہے، اس عمل کی وجہ سے انسان فاسق ہوجاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنا ضروری ہے اور اس دن کی جلد از جلد قضا بھی دے” انتہی
روزہ سے انحراف اور اس سے بغاوت کرنے والے لوگ صرف روزہ ہی سے نہیں بلکہ فطرت انسانی سے بغاوت کرتے ہیں، ایسے لوگ جو قصدا نماز روزہ ترک کرتے ہیں، دنیا ہی میں وہ مہلک امراض کے شکار ہوتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔
حضرت ابوامامہ الباھلی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دو شخص آئے جنہوں نے میرے بازوں کو پکڑ کر مجھے اٹھایا اور ایک دشوار گزار چڑھائی والے پہاڑ تک لے جاکر مجھے اس پر چڑھنے کے لیے کہا، میں نے انہیں کہا کہ مجھ میں اس پر چڑھنے کی طاقت نہیں، وہ دونوں کہنے لگے ہم آپ کے لیے اسے آسان کردیں گے، چناں چہ میں نے اس پر چڑھنا شروع کیا حتی کہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا تو میں نے وہاں شدید قسم کی چیخنے اور چلانے کی آوازیں سنیں، میں نے دریافت کیا کہ یہ چیخ وپکار کیسی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جہنمیوں کی آہ و بکا کا شور ہے، پھر وہ مجھے آگے لے گئے جہاں میں نے کچھ لوگوں کو الٹا لٹکے ہوئے دیکھا جن کی باچھیں چیر دی گئی تھیں اور ان سے خون بہہ رہا تھا، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
وہ کہنے لگے: یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل ہی اپنے روزے افطار کرلیا کرتے تھے “(صحيح ابن خزيمة)
علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ”یہ اس شخص کی سزا ہے جو روزہ رکھنے کے بعد افطاری سے قبل ہی عمدا یعنی جان بوجھ کر روزہ افطار کرلیا تو اس شخص کا کیا حال ہوگا؟ جس نے بالکل روزہ رکھا ہی نہیں، اس کی سزا کیا ہوگی؟ ہم اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں سلامتی و عافیت کے طلب گار ہیں۔”
روزہ خوری کا رجحان روز افزوں بڑھ رہا ہے، شہر اور دیہات میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہا، دونوں جگہ روزہ خوروں کی شرح میں اضافہ ہی ہورہا ہے، اس مہلک بیماری کا کامیاب علاج وقت کی شدید ضرورت ہے، سنجیدگی اور نیک نیتی سے غور کیا جائے، روزہ خوروں کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی جائے، والدین اپنے ایسے اولاد کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے انہیں سرزنش کریں اور مسلم معاسرے کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ایسے دین بیزار اور شعائر اسلام کا مذاق اڑانے والوں سے فاصلہ بنا کر رکھیں، سماجی بائیکاٹ کریں، عین ممکن ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کے غیظ و غضب اور عذاب سے ڈرجائے اور جتنی جلدی ہوسکے توبہ و استغفار کرلے، اللہ ہم سب لوگوں کو ماہ صیام کے تقاضوں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
