Waqf Act
گلبرگہ ، 15اگست (ڈاکٹر ماجد داغی محمدیوسف رحیم بیدری )۔
آل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ کے بانی و قومی صدر مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے حکومت ہند کی جانب سے پیش کردہ وقف ترمیمی ایکٹ 2024 کو غیر آئینی، غیر ضروری اور ناقابل قبول گردانا ہے، انہوں نے کہا کہ وقف کامطلب ہے کہ اپنی ذاتی ملکیت کو اپنے تصرف و اختیار سے نکال کر خالصتاً اللہ کی ملکیت میں اس طرح وقف کر دینا کہ اس کا فائدہ بندوں کو ہو۔ اس کے منافع کو فقرا و مساکین اور دوسرے کارہائے خیر میں صرف کرنا وقف ہے۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے مسجد قبا کے لئے زمین وقف کی۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ مدینہ میں سات باغوں کو وقف کیا گیا۔ وقف ایک مذہبی اور خیراتی عمل ہے۔ جس کے ذریعہ اسلام نے ایک نہایت ہی طاقتور معاشی و اقتصادی نظام کی بنا ڈالی۔ جس سے فقرائ،مساکین، مفلسوں،محتاجوں، بیواوں اور یتیموں کی کفالت کی جاتی ہے اور دوسرے بہت سے مذہبی، دینی امور اور کارخیر انجام پاتے ہیں۔چنانچہ مسلم معاشرہ میں اموال و جائداد کو وقف کرنے کی روایت چلی آرہی ہے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی آمد کے بعد اوقاف کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا، غیر منقسم بھارت کے علاوہ آزادئی ہند کے بعد دستور ہند کی روشنی میں یہ سلسلہ جاری رہا، مگر افسوس موجودہ حکومت نے وقف ایکٹ 1995 2013/میں ترمیم کے مجوزہ بل کے ذریعہ نہ صرف شریعت کے قوانین بلکہ دستور ہند میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو دئے گئے حقوق کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ حزب اختلاف حکومت ہند نے وقف ترمیمی بل 2024 کو لوک سبھا میں پیش کیا،لیکن اختلاف کے شدید دباﺅمیں اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے، ہم سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بل کو مذہبی حقوق پر حملہ اور فرقہ وارانہ منافرتکو بڑھانے والا بتانے پر انکا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ وقف ترمیمی بل کے فوائد اور مضمرات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ وقف ترمیمی بل 2024نئے بل میں وقف ایکٹ کا نام بدل کر یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ افیکینسی انڈ ڈیولپمنٹ کر دیا گیا ہے۔
Waqf Act
اس بل میں زبانی وقف کو ختم کر دیا گیا ہے۔ شریعت اسلامی میں زبانی وقف کو تسلیم کیا گیا ہے، نئے بل کے رو سے زبانی وقف معتبر نہیں ہوگا۔ جبکہ وقف ایکٹ 1995 2013/میں زبانی وقف کومعتبر مانا گیا ہے۔وقف ٹریبونل کے ذریعہ جاری فیصلہ کا سول ریویزن کیا جاتا تھا، لیکن نئے بل میں وقف ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ فائل، اپیل کرنے کا ضابطہ رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ وقف ٹریبونل کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔جو انتہائی قابل افسوس ہے اسکے علاوہ ایسی اراضی جس کا وقف نامہ موجود ہو اسی کو وقف مانا گیا ہے۔
Waqf Act
سرکاری یا غیر مزروعہ عام زمین پر قائم قبرستان یا مذہبی مقامات جو پہلے سے ہی وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں، وہ وقف ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار کلکٹر کو دیا گیا ہے،سینٹرل وقف کونسل کی تشکیل میں دو غیر مسلم کو ممبر بنانے کا ضابطہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل میں بھی دو غیر مسلم شخص کو ممبر بنائے جانے کا ضابطہ رکھاہے، جو واضح طور پر شرعی امور میں براہ راست مداخلت پر مبنی ہے ۔مولانا اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ واضح رہے کہ ہندو انڈاومنٹ ایکٹ، ہندو ریلیجیس پیوس ایکٹ گرودوارہ پربندھک کمیٹی اور دیگر مذہبی ایکٹ میں کسی مسلمان کو ممبر بنانے کا ضابطہ نہیں ہے تووقف بل میں غیر مسلم کو وقف بورڈ کا ممبر بنائے جانے سے کیا سماج میں انتشار پیدا نہ ہوگا؟نئے بل میں وقف اراضی کو وقف بورڈکے ذریعہ تحقیقات کے بعد وقف اراضی ڈکلیر کرنے کا حق بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ بل میں وقف ایکٹ 1995 2013/میں دیئے گئے وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرکے تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نفاذ سے وقف کے معاملات سلجھنے کے بجائے وقف ایکٹ کے ذریعہ معلاملات اور پیچیدہ ہوجائیں گے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ وقف کی جائداد واقف کی منشا کے مطابق استعمال ہونے کے بجائے حکومت کی منشا کے مطابق استعمال ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا، وقف ٹریبونل کی حیثیت کم ہونے سے انصاف کی راہ مشکل ہوجائے گی، اسکے علاوہ بھی اور ایسے قوانین میں ترمیمات کی پیشکش کی گئی ہے جو تقریباً غیر شرعی اور دستور ہند کے مخالف ہیں۔
Waqf Act
مولانا سید محمداشر ف کچھوچھوی نے کہا کہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ حکومت اتنے اہم، حساس اور شرعی معاملے پر علماءو دانشوران ملت سے بغیر صلاح و مشورہ محض چند نام نہاد، ضمیر فروش ملت کے غداروں سے مشاورت کے بعد اس بل کو پیش کیا ہے اور قوم و ملت میں بے وقعت، بے اثر،نام نہاد،صوفی،خانقاہی اور درگاہی تنظیموں کی تائید کا جھوٹا پروپگنڈہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اگر وقف مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہئے کہ بل پیش کرنے سے قبل اسلامی شریعت اور وقف کے ماہرین سے رائے لے اور مسلم سماج کو یہ اطمینان دلاکہ نیا بل وقف کے مفادات کو تحفظ فراہم کرائے گا اور اس کے ذریعہ کسی بھی طرح کے مذہبی معاملات کو آنچ نہیں آئے گی۔
Waqf Act
مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عوام میں بیداری لائی جائے، ہم اپنی کارکردگی سے کوئی ایسا موقع نہ دیں جس سے حکومت کو سخت قدم اٹھانا پڑے۔ اس پیغام کو عام کیا جائے کہ وقف ایک مذہبی اور خیراتی املاک ہے، اس سے مستفید ہونے کے اصل حقدار مسلم سماج کے غریب، نادار، یتیم، بیوہ اور مالی اعتبار سے کمزور اور خستہ حال لوگ ہیں۔اب جب کہ وقف ترمیمی بل 2024 جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے، ملی و مذہبی رہنماوں اور تنظیموں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے ان کو چاہئے کہ وہ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے اراکین، سیاسی رہنماوں اور پارٹیوں سے مل کر اپنے خدشات اور بل کی خامیوں کو پیش کریں اور اس کے تدارک کی قانونی طور پر کوشش کریں۔
Waqf Act
واضح ہو کہ آل انڈیا علماے و مشائخ بورڈ کشمیر سے کنیا کماری ، گجرات سے بنگال و آسام تک سنی صوفی درگاہوں اور خانقاہوں کی واحد اورمعتبر تنظیم و تحریک ہے ۔اس کے بانی و صدر مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی ،جمیع عہدران اور اراکین پوری زمہ داری کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہم وقف ترمیمی بل 2024 کی مخالفت کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
