نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم دین اسلام کی دو اہم عیدوں میں ایک عید الاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالمِ اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ اس عید کا آغاز 624ء میں ہوا۔ نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟ان لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں، ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن.(ابوداؤد: 1134)عیدالاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دِن ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ روزِ عید ہم سب مل کر توبہ استغفار کریں۔ زبانی نہیں، عملی توبہ ۔ پروردگار کےحضور گڑگڑا کر دُعا کریں، اپنی کوتاہیوں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یاد رہے دُنیا کی ابتدا ہی سے قربانی تمام مذاہب کا ایک لازمی حصّہ رہی ہے۔ یہ اللہ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹھہرا کر پیش کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاًچھری چلائی جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوۂ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھےحضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے گذری تھی۔ذی الحجہ کے مہینے میں پوراعالم اسلام قربانی کرتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی سنت کو زندہ کرتا ہے جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے ہمت اور توفیق عطا فرمائی ہے وہ قربانی کرنا ایک فریضہ سمجھتا ہے۔اس مہینہ میں قربانی نہ کرنا بہت بڑی بدنصیبی اور بدبختی سمجھی جاتی ہے۔کچھ عرصہ سے منکرین حدیث نے جس طرح اسلام کے اور بہت سے عظیم الشان احکامات اور شعائر کا مذاق اڑانا شروع کردیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے قربانی جیسے عظیم اسلامی نشان کو ہدف تنقید بناکر رکھا ہے۔ ان کی نظر میں قربانی کا جانور ذبح کر کے مال اور وقت کو ضائع کیا جاتا ہے اور ستم بر ستم یہ کہ وہ اپنے ان خیالات فاسدہ کو اسلامی فلسفہ بھی قرار دیتے ہیں(العیاذ باللہ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمانبردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا۔ ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔اسے کرڈالیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ (سورۂ الصٰفٰت ۱۰۲) بیٹے کے اس جواب کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب مکہ مکرمہ سے ذبح کرنے کے لیے لے کر چلے تو شیطان نے منیٰ میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی جس پر انہوں نے سات سات کنکریاں اس کو ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا۔آخرکار رضاء الہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹادیاچھری تیز کی آنکھو ں پر پٹی باندھی اور اُس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی۔ اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (سورۂ الصٰفٰت۱۰۴۔ ۱۰۵) چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا دیا گیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کردیا۔ (سورۂ الصٰفٰت ۱۰۷) اس واقعہ کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اس کو اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گاان شاء اللہ قربانی کا حکم۔ تمام فقہاء وعلماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں۔ البتہ قربانی کو واجب یا سنت مؤکدہ کا ٹائٹل دینے میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔حضرت امام ابوحنیفہؒ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس کے وجوب کافیصلہ فرمایا ہے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں۔حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ البتہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت نے بعض دلائل کی روشنی میں قربانی کے سنت مؤکدہ ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ لیکن عملی اعتبار سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کا اہتمام کرنا چاہیے اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنا غلط ہے خواہ اس کو جو بھی ٹائٹل دیا جائے۔”جواہر الاکلیل شرح مختصر خلیل” میں امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تحریر ہے کہ اگر کسی شہر کے سارے لوگ قربانی ترک کردیں تو ان سے قتال کیا جائے گا کیونکہ قربانی اسلامی شعار ہے۔صحابہ وتابعین عظام سے استفادہ کرنے والے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (۸۰ھ۔۱۵۰ھ) کی قربانی کے وجوب کی رائے احتیاط پر مبنی ہے۔قربانی کے وجوب کے دلائل۔ قرآن وسنت میں قربانی کے واجب ہونے کے متعدد دلائل ہیں،یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل ذکر کئے جارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۂ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم امر دیا ہے۔عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے۔ وَانْحَرْ کے متعدد مفہوم مراد لیے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح وَانْحَرْ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاء السنن) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید کا اعلان کیا ہے اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہیے۔ (بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد، مسلم۔کتاب الاضاحی۔باب وقتہا) اگر قربانی واجب نہیں ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کرنے کی صورت میں دوسری قربانی کرنے کا حکم نہیں دیتے باوجودیکہ اُس زمانہ میں عام حضرات کے پاس مال کی فراوانی نہیں تھی۔نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا ۔اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد ۴/۲۱۵، ابوداؤد ۔باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبۃ ہی ام لا)حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ۔قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱/۱۸۲) مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی، جیساکہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ (محلیٰ بالآثارج ۶ ص ۳۷، کتاب الاضاحی) معلوم ہوا کہ مقیم پر قربانی واجب ہے۔قرآنِ کریم میں قربانی کا ذکر۔ نماز پڑھئے اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجئے۔ (سورۂ الکوثر ۲)قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ، پہلی امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ (سورۂ الحج ۳۴) نسک کے مختلف معنی ہیں، مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس سے مراد قربانی لی ہے۔ ہم نے ہر امت کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔(سورۂ الحج ۶۲) آپ فرمادیجئے کہ یقیناًمیری نماز، میری قربانی اور میرا جینا و مرنا سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔ (سورۂ الانعام ۱۶۲)اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اُن کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔(سورۂ الحج ۳۷)وضاحت: قربانی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ جتنے اخلاص اور اللہ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجروثواب اللہ تبارک وتعالیٰ عطا فرمائے گا اور یہ اصول صرف قربانی کے لیے نہیں بلکہ نماز، روزہ،زکاۃ،حج یعنی ہر عمل کے لیے ہے لہذا ہمیں ریا، شہرت، دکھاوے سے بچ کر خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کیلیے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں۔وضاحت۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے اور ہر امت میں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی مشروع رہی ہے۔ اور یہ ایک اہم عبادت ہے اس کی مشروعیت، تاکید، اہمیت اور اس کے اسلامی شعار ہونے پر عصر حاضر کے بھی تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔قربانی کرنے کی فضیلت۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) ۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو( ترمذی ۱/۱۸۰،،،، ابن ماجہ)حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابۂ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہمارے لیے اس میں کیا اجروثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد۔ الترغیب والترھیب)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹)حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱/۱۸۲) حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے فاطمہ! جاؤ۔ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گاتمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا۔ اور پھر اسے ستر گنا (بھاری کرکے)تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔ حضرت ابوسعید الخدریؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ فضیلت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ فضیلت آل محمد کے لیے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی عام ہے۔ یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی (الترغیب والترہیب)وضاحت۔ قربانی کے فضائل میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں۔ بعض احادیث کی سند میں ضعف بھی ہے مگر قربانی کا حکم قرآن کریم واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لہذا اصول حدیث کے مطابق فضائل قربانی میں احادیث ضعیفہ معتبر ہوں گی۔ان مبارک ایام میں خون بہانے کی فضیلت۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔(بخاری ومسلم، ترمذی، ابن ماجہ نسائی، ابوداؤد ، مسند احمد وغیرہ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر انہیں قربانی کے ایام میں ۱۰۰ اونٹوں کی قربانی دی ان میں سے ۶۳ اونٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود نحر ذبح کئے اور باقی ۳۷ اونٹ حضرت علیؓ نے نحر ذبح کئے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن سینگوں والے دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کئے۔ (ابوداؤد۔باب مایستحب من الضحایا) غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم عبادت ہے۔قربانی نہ کرنے پر وعید۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ لَہ سَعَۃٌ وَلَمْ ےُضَحِّ فَلا ےَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔قربانی کا وقت۔قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا ہے جیساکہ حدیث میں گزرا اس سے قربانی کا ابتدا ئی وقت معلوم ہوا۔قربانی کے آخری وقت کی تحدید میں فقہاء وعلماء کے درمیان زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ (ایک روایت) نے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک تحریر کیا ہے جبکہ بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک وقت تحریر کیا ہے۔ پہلا قول احتیاط پر مبنی ہونے کے ساتھ دلائل کے اعتبار سے بھی قوی ہے کیونکہ کسی بھی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کی ہو، البتہ بعض احادیث وآثار کے مفہوم سے دوسرے قول کی تایید ضروری ہوتی ہے مگر اُن احادیث وآثار کے دوسرے معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : کل فجاج مکہ منحر وکل ایام التشریق ذبح (طبرانی وبیہقی)۔ اولاً اس حدیث کی سندمیں ضعف ہے،احادیث ضعیفہ فضائل کے حق میں تو معتبر ہیں، لیکن ان سے حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ثانیاًبعض کتب حدیث میں یہ حدیث “وکل ایام التشریق ذبح” کے الفاظ کے بغیر مروی ہے۔قربانی کا وقت ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے، اس کے چند دلائل پیش ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی سالوں میں صحابۂ کرام کے اقتصادی حالات کے پیش نظر قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع فرمادیا تھا، بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی۔ اگر چوتھے دن قربانی کی جاسکتی ہے تو پھر تین دن سے زیادہ قربانی کا ذخیرہ کرنے سے منع کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ (کتب حدیث میں یہ حدیثیں موجود ہیں(حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایام معلومات یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) اور اسکے بعد دو دن (۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ) ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص ۔ باب الایام المعلومات / تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج ۶ ص ۲۶۱)مشہور ومعروف تابعی حضرت قتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ الذِّبْحُ بَعْدَ النَّحرِ ےَوْمَان۔ قربانی دسویں ذی الحجہ کے بعد صرف دو دن ہے(سنن کبری للبیہقی ۔ باب من قال الاضحی یوم النحر) حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت انسؓ کے علاوہ حضرت علیؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت ابوہریرہؓ حضرت سعید بن الجبیرؓ اور سعید بن المسیبؒ رضی اللہ عنہ اجمعین کے اقوال بھی کتب حدیث میں مذکور ہیں جسمیں وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ قربانی صرف تین دن ہے۔وضاحت۔امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد فوری طور پر قربانی کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے۔بلکہ کچھ کھائے بغیر نماز عیدالاضحی کے لیے جانا اور سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا عیدالاضحی کی سنن میں سے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کا یہی معمول تھا۔ اس وجہ سے ہمیں پہلے ہی دن قربانی کرنی چاہیے۔اگر کسی وجہ سے پہلے دن قربانی نہ کرسکتے یا چند قربانیاں کرنی ہیں تو ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ضرور فارغ ہوجا نا چاہیے کیونکہ جن بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کی اجازت دی ہے انہوں نے بھی یہی تحریر کیا ہے کہ ۱۲ ذی الحجہ سے قبل ہی بلکہ ۱۰ ذی الحجہ کو ہی قربانی کرلینی چاہیے۔قربانی کے جانور کی عمر۔بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اوردنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے,بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا بکری، مینڈھا، دنبہ ایک شخص کی طرف سے ہے(اعلاء السنن۔باب ان البدنہ عن سبعۃ)حضر ت جابرؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھکر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں(مسلم۔باب جواز الاشتراک)حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے(مسلم۔ باب جواز الاشتراک فی الہدی)قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا۔عیب دار جانور جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں اندھا جانور ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہواس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو وغیرہ وغیرہ کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔بڑا جانور پر قربانی کا حکم.جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ گائے واونٹ کی طرح بھینس پر بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک ہوسکتے ہیں۔خود قربانی کرنا افضل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے۔اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے۔جیساکہ حدیث میں گزرا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قربانی پر حاضررہنے کو فرمایا۔قربانی کا گوشت۔ قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں۔ رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماء کرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں تو بہتر ہےایک حصہ اپنے لیے دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غرباء ومساکین کے لیے لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری نہیں ہیں۔میت کی جانب سے قربانی۔ جمہور علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔اس قربانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ افراد کے لیے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت علیؓ رضی اللہ عنہ نے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، ترمذی)قربانی کرنے والے کے لیے مستحب عمل۔حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے۔اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ایک شبہ کا ازالہ۔مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر بعض حضرات نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا ہے کہ جانوروں کے خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کی جائے ۔اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوۃ کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لیے لٹادیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں وچرا حکم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے اپنی گردن پیش کردی تھی۔مگر اللہ تعالی نے اپنا فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا.اِس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کرکے ہی ہو سکتا ہے محض صدقہ وخیرات سے اِس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔ نیز ۱۴۰۰ سال قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کو واضح کردیا.حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عید کے دن قربانی کا جانور خریدنے کے لیے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے.یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں غربت دورحاضر کی نسبت بہت زیادہ تھی. اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے مگر تاریخ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا.قربانی سے کیا سبق حاصل کریں؟جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے، لہذا ہم بھی احکام الہی پر عمل کرنے کے لیے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دیں۔قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہیے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزاری ،جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا.جان ،مال ،ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا.ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں.قربانی کی شرائط و ارکان۔قربانی کے واجب ہونے کی تین شرائط ہیں۔مسلمان ہونا۔ مقیم ہونا اور اتنا نصاب کا مالک ہونا کہ جس کی وجہ سے قربانی کا وجوب لازم ہوجاتا ہے۔
وما توفيقي إلا بالله۔ آمین یا رب العالمین۔
مضمون نگار ،ناظم۔انجمن قاسمیہ،چنئی،چیرمین۔تنظیم فروغ اردو،تمل ناڈو۔انڈیا۔9444192513