چنئی، 27 فروری۔ بروز پیر 26 فروری کو “اردو کلب” مدراس یونیورسٹی کی جانب سے طلبا و طالبات کی اردو سیمنار کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس سے پیشتر تمل ناڈو کے ممتاز شاعر و ادیب علیم صباؔنویدی کی رحلت پر ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی۔جناب علیم صباؔ نویدی کا انتقال بروز سنیچر، 24 فروری، 2024 کو مدراس میں ہوا۔ آپ کی وفات سے تمل ناڈو بلکہ اردو دنیا کے تمام حلقوں میں ایک غم کی لہر دوڑ گئی۔ علیم صباؔ نویدی مرحوم اردو دنیا کے لیے محتاج تعارف نہیں۔ انھوں نے تمل ناڈو عالمی ادبی منظر نامہ میں نہ صرف نمایاں کیا بلکہ اردو کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہئیتی تجربے بھی کیے۔ آپ کی مقبول ترین تصنیف میں “تمل ناڈو میں اردو” کا شمار ہوتا ہے۔ آپ بحیثیت شاعر ہی نہیں بلکہ افسانہ نگار، کہانی کار، مترجم، محقق، نقاد غرض اردو ادب کے ہر پہلو پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منایا ہے۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ شعبہ اردو مدراس یونیورسٹی اور علیم صباؔ نویدی مرحوم کے تعلقات نصف صدی سے ہے۔
شعبہ عربی، فارسی و اردو، مدراس یونیورسٹی نے تعزیتی اجلاس منعقد کرکے علیم صبا نویدی مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس تعزیتی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر امان اللہ صاحب چیرمین شعبہ اردو مدراس یونیورسٹی نے سنبھالی۔ علیم صبا نویدی کی علمی، ادبی، تحقیقی و تنقیدی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی اچانک رحلت سے ادبی دنیا میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا ہے۔
اس خلا کو پر کرنا نا ممکن نہ سہی دشوار ضرور ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ شعبہ اردو کے زیر اہتمام اردو کلب آج اردو طلبا کا سیمینار طے پایا ہے۔ یہ اس بات کا ضامن ہے کہ بزگ اور عظیم ادیب و شاعر کی وفات سے اردو دنیا کو جو نقصان ہوا ہےاس کی بھرپائی کے سلسلے میں یہ طلبا کانفرنس نو آموز قلم کاروں کو ایک تربیت گاہ کے طور پر ان کی اصلاح کا مرکز بنارہے گا، جس سے آگے چل کر علیم صبا نویدی جیسے فنکار، قلمکار، محقق و نقاد وجود میں آسکتے ہیں۔ نیز ڈاکٹر امان اللہ صاحب نے علیم صبا نویدی سے اپنے مراسم و تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علیم صبا نویدی نے تادم آخر اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ آنے والے مارچ کی نو تاریخ کو بھی علیم صبا نے تمل ناڈو کی ایک معروف شخصیت، تقریبا سو کتابوں کے مصنف جناب مختار بدری صاحب کی علمی، ادبی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں “جشن مختار” پروگرام کا اہتمام کیا تھا، جس کے دعوت نامے چھپ چکے تھے۔ اس جلسے کے مہمان اعزازی کے طور پر ڈاکٹر امان اللہ صاحب کو مقرر کیا تھا اور اسی وقت علیم صبا کے زبانی یہ جملے نکل گئے تھے کہ یہ ان کا آخری پروگرام ہوگا، جسے وہ کامیاب بناکر رہیں گے۔
اس پروگرام میں شرکت کے لئے کلکتہ سے تقریبا پانچ مہمان پروفیسر حضرات و شاعرات نے اپنے سفر کی ٹکٹ بھی بنواچکے تھے، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ڈاکٹر امان اللہ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ علیم صبا نویدی نے کچھ مسودہ بھی ایک ہفتہ پہلے ان کے حوالے کیا تھا اور انھیں یہ حکم دیا کہ “تمل ناڈو کے روشن چہرے” کے عنوان سے کتاب ترتیب دینا ہے جس کی رسم رونمائی نو مارچ کے ہونے والے اجلاس میں ہونا طے پایا تھا۔ نیز علیم صبا نے ڈاکٹر پروین فاطمہ صاحبہ کو بھی مدراس یونیورسٹی کے شعبہ عربی، فارسی و اردو کی علمی، ادبی و تحقیقی خدمات پر مشتمل انگریزی مضمون کو اردو میں ترجمہ کرنے کو کہا تھا۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود بھی وہ اپنے قلم کو جنبش دے رہے تھے۔ مزید کام باقی بھی رہ گئے
“آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں”
“سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں”
شعبہ عربی، فارسی واردو نے یہ قرار داد دیتے ہوئے حضرت علیم صبا نویدی مرحوم کے علمی و ادبی خدمات کےاعتراف میں ان کی رحلت پر اظہار رنج و غم کرتا ہے، ان کے پسماندگان بالخصوص ان کی دختر نیک اختر ڈاکٹر جاویدہ حبیب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہے۔ صدر شعبہ عربی، فارسی و اردو جناب ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب، جناب شاہد مدراسی، ڈاکٹر حیات افتخار، ڈاکٹر پروین فاطمہ، ڈاکٹر طیب خرادی،محترمہ عائشہ صدیقہ، جناب کلیم اللہ امداد وغیرہ نے تعزیتی کلمات پیش کیے اور ڈاکٹر تمیم احمد صاحب نے مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا کی۔
تعزیتی نشست کے فورا بعد “اردو کلب” کا اصل پروگرام “پہلا طلبا سیمینار” شروع ہوا۔ اس نشست میں کل آٹھ مقالے پیش کیے گئے جو اردو ادب کا مختلف احاطہ کرتے ہوئے ایم۔اے سال اول اور سال دوم کے طلبا و طالبات نے مقالے پیش کیے جن میں کلیم اللہ امداد، فرزانہ انجم، عظیم اللہ، شیخ تارا، محمد غوث، ابرار الحق، نسرین، محمد الیاس وغیرہ۔
سیمینار کے اختتام میں صدور اجلاس ڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹر حیات افتخار اور ڈاکٹر پروین فاطمہ اپنے صدارتی محاکمہ میں طلبا کو مقالہ خوانی، انشاءپردازی، تحریر مقالہ، عنوان کا انتخاب، مقالہ نگاری کے اصول و ضوابط سے متعلق بھرپور نشاندہی کرتے ہوئے ان کے مقالات پر تبصرہ بھی کیے اور اصلاح کی تلقین بھی کی۔ اس اجلاس کا افتتاح جناب غوث احمد کے قرآت کلام پاک سے ہوا اور جناب شاہد مدراسی نے علیم صبا نویدی مرحوم کا نعتیہ کلام ترنم میں پیش کیا۔ محترمہ عائشہ صدیقہ نے نظامت فرمائی اور ڈاکٹر تمیم احمد صاحب کے ہدیہ تشکر سے یہ اجلاس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔۔