اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ’ساہتیہ سپتاہ‘ تقریبات کا اہتمام
نئی دہلی(ایچ ڈی بیورو)۔
محکمہ فن ،ثقافت والسنہ حکومت دہلی کی جانب سے جشن آزادی کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ”ساہتیہ سپتاہ“ منایا جا رہا ہے،جس کا آغاز13اگست کو مشاعرہ جشن آزادی سے کیا گیا اور مختلف اکادمیوں کے زیر اہتمام ساہتیہ سپتاہ کے تحت پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں۔ 16اگست بروز منگل کو دلی ہاٹ، جنکپوری نئی دہلی میں ساہتیہ سپتاہ تقریبات کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں مختلف قسم کے ثقافتی و ادبی پروگرام پیش کیے گئے۔اس موقع پراردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم 75ویں جشن آزادی کی تقریب منا رہے ہیں اور اپنے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ ”ساہتیہ سپتاہ“ کے انعقاد کے لیے میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے جشن آزادی کی پروقار تقریبات کی اجازت دی ، جس کاسلسلہ کل ہند مشاعرہ جشن آزادی سے جاری ہے۔
پہلا پروگرام یونیورسٹی سطح پر غزل اور نظم سرائی مقابلہ منعقد ہوا، جس میں بطور جج معروف شاعر شکیل جمالی اور معین شاداب نے شرکت کی۔ اس مقابلے میں مہتاب عالم ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کو پہلا انعام، محمود احمد، ذاکر حسین دہلی کو کالج کو دوسرا انعام اور محمد سرفراز، دہلی یونیورسٹی کو تیسرے انعام سے نوازا گیا جب کہ حوصلہ افزا انعام کے لیے بشریٰ فیصل ، کروڑی مل کالج دہلی اور خوشبو پروین ، دہلی یونیورسٹی شامل ہیں۔سبھی طلباءکو اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد اور جج حضرات کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ اور اکادمی کا مومنٹو بھی دیا گیا۔ انعامات تقسیم کیے جانے سے قبل جج صاحبان نے طلبا کو مفید مشوروں سے نوازا۔ شکیل جمالی نے کہاکہ شاعری میں تلفظ کی کافی اہمیت ہوتی ہے، اگر تلفظ درست نہ ہو تو آپ مقابلے میں پچھڑ جاتے ہیں، ہمیں ضرورت ہے کہ کلام کا بھی اچھا انتخاب کریں اور غزل اور نظم کے فرق سمجھیں۔ معین شاداب نے کہاکہ میں کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا، بس معیار کلام کی بنیاد پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ جہاں تک بات اردو کی ہے اردو تو تلفظ پر ہی ٹکی ہوئی ہے اور اردو والے اس کی خرابی کو برداشت نہیں کرتے۔ طلبا کو چاہیے کہ اس طرف خصوصی توجہ دیں۔غزل سرائی مقابلے کے بعد شام غزل کا انعقاد ہوا جس میں معروف غزل گلوکار جاوید خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔میوزیکل داستان(امیر خسرو) جسے وسعت احمدو ہمنواﺅںنے پیش کیا۔ انہوں نے صوفیانہ طرز پر اپنے پروگرام کو ترتیب دیتے ہوئے پہلے حضرت علیؓ کی شان میں کلام پیش کیا اور بعد میں امیرخسرو کا کلام اپنے منفرد انداز میں پیش کیا۔انڈین اوپیرا فیوژن کے تحتکابکی کھنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ان پروگراموں کے بعد ”شاعرات کا کل ہند مشاعرہ“ منعقد ہوا جس میں اہم شاعرات نے اپنے نمائندہ اشعار پیش کیے۔اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعرہ حنا تیموری نے کی جب کہ نظامت کے فرائض معروف شاعرہ نصرت مہدی نے انجام دیے۔مشاعرے کا باضابطہ آغاز اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد اور شاعرات نے شمع روشن کرکے کیا۔ منتخب کلام قارئین کے ذوق وشوق کے لیے پیش خدمت ہے:
زندگی کے لیے کچھ کام ضروری ہے حنا
میں نے لوگوں کو یہ احساس دلا رکھا ہے
(حنا تیموری)
زندہ تو ہوں جینے کی ادا یاد نہیں
دنیا کے ستم تیری جفا یاد نہیں
(راشدہ باقی حیا)
رستے رہتے ہیں چشم گریاں سے
جسم و دلِ پر ہے کربلائی چوٹ
(صبیحہ سنبل)
میں زندگی کی کتاب میں اک فسانہ کے اثر نہیں تھی
ورق کو جلدی الٹا گئے تم میں قصہ¿ مختصر نہیں تھی
(نصرت مہدی)
اے وطن میں تیری بیٹی ہوں چہیتی بیٹی
اپنی مٹی تری مٹی کے حوالے کر دوں
(انا دہلوی)
ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
(علینا عترت)
میرا تن من ہی کیا جان قربان ہے
اس سے الفت میرا نصف ایمان ہے
میں ترنگے کو جھکنے نہ دوں گی کبھی
یہ ترنگا مرے ملک کی شان ہے
(نکہت امروہوی)
میں کوئی پھول نہیں ہوں جو بکھر جاو¿ں گی
میں وہ خوشبو ہوں جو سانسوں میں اتر جاو¿ں گی
(خوشبو شرما)
وفا کا فیصلہ اقرار پر ہے
مرا سب کچھ نگاہِ یار پر ہے
(نوری پروین)
مشاعرے کے اختتام کے بعد محفل قوالی کا اہتمام کیا گیا جس میں دہلی کے معروف قوال ہمسر حیات نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر تمام مہمانوں، فنکاروں اور شاعرات کو گلدستہ پیش کرکے ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس موقع پربڑی تعدادمیں غیر اردو داں سامعین بھی موجود رہے اور پروگرام سے لطف اندوز ہوئے۔اس پروگرام میں اردو اکادمی دہلی کی گورننگ کونسل کے ممبر اسرار قریشی نے بھی شرکت کی۔
زندگی کےلئے کچھ کام ضروری ہے حنا٭میں نے لوگوں کو یہ احساس دلا رکھاہے
اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ’ساہتیہ سپتاہ‘ تقریبات کا اہتمام
نئی دہلی(ایچ ڈی بیورو)۔
محکمہ فن ،ثقافت والسنہ حکومت دہلی کی جانب سے جشن آزادی کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ”ساہتیہ سپتاہ“ منایا جا رہا ہے،جس کا آغاز13اگست کو مشاعرہ جشن آزادی سے کیا گیا اور مختلف اکادمیوں کے زیر اہتمام ساہتیہ سپتاہ کے تحت پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں۔ 16اگست بروز منگل کو دلی ہاٹ، جنکپوری نئی دہلی میں ساہتیہ سپتاہ تقریبات کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں مختلف قسم کے ثقافتی و ادبی پروگرام پیش کیے گئے۔اس موقع پراردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم 75ویں جشن آزادی کی تقریب منا رہے ہیں اور اپنے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ ”ساہتیہ سپتاہ“ کے انعقاد کے لیے میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے جشن آزادی کی پروقار تقریبات کی اجازت دی ، جس کاسلسلہ کل ہند مشاعرہ جشن آزادی سے جاری ہے۔
پہلا پروگرام یونیورسٹی سطح پر غزل اور نظم سرائی مقابلہ منعقد ہوا، جس میں بطور جج معروف شاعر شکیل جمالی اور معین شاداب نے شرکت کی۔ اس مقابلے میں مہتاب عالم ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کو پہلا انعام، محمود احمد، ذاکر حسین دہلی کو کالج کو دوسرا انعام اور محمد سرفراز، دہلی یونیورسٹی کو تیسرے انعام سے نوازا گیا جب کہ حوصلہ افزا انعام کے لیے بشریٰ فیصل ، کروڑی مل کالج دہلی اور خوشبو پروین ، دہلی یونیورسٹی شامل ہیں۔سبھی طلباءکو اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد اور جج حضرات کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ اور اکادمی کا مومنٹو بھی دیا گیا۔ انعامات تقسیم کیے جانے سے قبل جج صاحبان نے طلبا کو مفید مشوروں سے نوازا۔ شکیل جمالی نے کہاکہ شاعری میں تلفظ کی کافی اہمیت ہوتی ہے، اگر تلفظ درست نہ ہو تو آپ مقابلے میں پچھڑ جاتے ہیں، ہمیں ضرورت ہے کہ کلام کا بھی اچھا انتخاب کریں اور غزل اور نظم کے فرق سمجھیں۔ معین شاداب نے کہاکہ میں کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا، بس معیار کلام کی بنیاد پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ جہاں تک بات اردو کی ہے اردو تو تلفظ پر ہی ٹکی ہوئی ہے اور اردو والے اس کی خرابی کو برداشت نہیں کرتے۔ طلبا کو چاہیے کہ اس طرف خصوصی توجہ دیں۔غزل سرائی مقابلے کے بعد شام غزل کا انعقاد ہوا جس میں معروف غزل گلوکار جاوید خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔میوزیکل داستان(امیر خسرو) جسے وسعت احمدو ہمنواﺅںنے پیش کیا۔ انہوں نے صوفیانہ طرز پر اپنے پروگرام کو ترتیب دیتے ہوئے پہلے حضرت علیؓ کی شان میں کلام پیش کیا اور بعد میں امیرخسرو کا کلام اپنے منفرد انداز میں پیش کیا۔انڈین اوپیرا فیوژن کے تحتکابکی کھنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ان پروگراموں کے بعد ”شاعرات کا کل ہند مشاعرہ“ منعقد ہوا جس میں اہم شاعرات نے اپنے نمائندہ اشعار پیش کیے۔اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعرہ حنا تیموری نے کی جب کہ نظامت کے فرائض معروف شاعرہ نصرت مہدی نے انجام دیے۔مشاعرے کا باضابطہ آغاز اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد اور شاعرات نے شمع روشن کرکے کیا۔ منتخب کلام قارئین کے ذوق وشوق کے لیے پیش خدمت ہے:
زندگی کے لیے کچھ کام ضروری ہے حنا
میں نے لوگوں کو یہ احساس دلا رکھا ہے
(حنا تیموری)
زندہ تو ہوں جینے کی ادا یاد نہیں
دنیا کے ستم تیری جفا یاد نہیں
(راشدہ باقی حیا)
رستے رہتے ہیں چشم گریاں سے
جسم و دلِ پر ہے کربلائی چوٹ
(صبیحہ سنبل)
میں زندگی کی کتاب میں اک فسانہ کے اثر نہیں تھی
ورق کو جلدی الٹا گئے تم میں قصہ¿ مختصر نہیں تھی
(نصرت مہدی)
اے وطن میں تیری بیٹی ہوں چہیتی بیٹی
اپنی مٹی تری مٹی کے حوالے کر دوں
(انا دہلوی)
ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
(علینا عترت)
میرا تن من ہی کیا جان قربان ہے
اس سے الفت میرا نصف ایمان ہے
میں ترنگے کو جھکنے نہ دوں گی کبھی
یہ ترنگا مرے ملک کی شان ہے
(نکہت امروہوی)
میں کوئی پھول نہیں ہوں جو بکھر جاو¿ں گی
میں وہ خوشبو ہوں جو سانسوں میں اتر جاو¿ں گی
(خوشبو شرما)
وفا کا فیصلہ اقرار پر ہے
مرا سب کچھ نگاہِ یار پر ہے
(نوری پروین)
مشاعرے کے اختتام کے بعد محفل قوالی کا اہتمام کیا گیا جس میں دہلی کے معروف قوال ہمسر حیات نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر تمام مہمانوں، فنکاروں اور شاعرات کو گلدستہ پیش کرکے ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس موقع پربڑی تعدادمیں غیر اردو داں سامعین بھی موجود رہے اور پروگرام سے لطف اندوز ہوئے۔اس پروگرام میں اردو اکادمی دہلی کی گورننگ کونسل کے ممبر اسرار قریشی نے بھی شرکت کی۔