لکھنؤ،19نومبر(ایچ ڈی نیوز)۔
اتر پردیش حکومت نے ہفتہ کے روز ریاست میں حلال مصدقہ مصنوعات کی پیداوار ، ذخیرہ ، تقسیم اور فروخت پر فوری اثر سے پابندی عائد کردی۔ تاہم برآمدی مصنوعات کو اس پابندی کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ اتر پردیش کے فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ( ایف ایس ڈی اے) کی کمشنر اور ایڈیشنل چیف سکریٹری انیتا سنگھ نے ہفتہ کو اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔
اس سے قبل ہفتہ کو حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں چار تنظیموں ، پروڈکشن کمپنیوں ، ان کے مالکان اور منیجرز کے ساتھ ساتھ دیگر نامعلوم افراد کے خلاف بھی حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر غیر ضروری طور پر رقم بٹورنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر مختلف مذاہب کے درمیان دشمنی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ نیز اس کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال ملک دشمن ، علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ایف آئی آر میں جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے ان میں چنئی کی حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ ، دہلی کی جمعیت علماءہند حلال ٹرسٹ ، ہندوستان کی حلال کونسلنگ اور ممبئی کی جمعیة علماءتنظیمیں اور کچھ نامعلوم افراد شامل ہیں۔ یوگی حکومت نے ڈیری آئٹمز ، چینی ، بیکری کی مصنوعات ، پیپرمنٹ آئل ، مشروبات ، خوردنی تیل ، کچھ ادویات ، طبی آلات اور کاسمیٹک مصنوعات جیسے حلال سرٹیفیکیشن کے ساتھ لیبل لگانے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔
ریاستی حکومت نے ایک بیان میں کہا’ اتر پردیش میں حلال مصدقہ ادویات ، طبی آلات ، کھانے پینے کی اشیاءاور کاسمیٹکس کی پیداوار ، ذخیرہ کرنے ، تقسیم کرنے ، خرید و فروخت کرنے والے کسی بھی فرد یا فرم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔’حلال سرٹیفیکیشن ایک متوازی نظام کے طور پر کام کر رہا ہے اور یہ کھانے کے معیار کے حوالے سے الجھن پیدا کرتا ہے ، اس سلسلے میں حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ایف ایس ڈی اے کمشنر انیتا سنگھ نے کہا ’ ریاستی حکومت نے ریاست میں حلال مصدقہ مصنوعات کی پیداوار ، ذخیرہ ، تقسیم اور فروخت پر فوری اثر سے پابندی لگا دی ہے۔ اس پابندی سے صرف برآمدی مصنوعات مستثنیٰ ہوں گی۔
جمعیت علمائ ہند حلال ٹرسٹ کا وضاحتی بیان
اب اس پر جمعیت علماءہند حلال ٹرسٹ نے بھی اپنا وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند حلال ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اب ضروری ہوگی اہے حلال ٹرسٹ کام اوراس کے مقاصد کے سلسلے میں پید ا کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔جمعیت علماءہند حلال ٹرسٹ کے زیر اہتمام سرٹیفیکیشن کامعاملہ مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں اور ملک و بیرون ملک ان کی برآمد و درآمد کی ضروریات سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ اسے کسی بھی تناظرمیں پیش کرنا سرار گمراہ گن شرارت ہے۔موجودہ دور میں عالمی سطح پر حلال مصدقہ مصنوعات کی مانگ بہت زیادہ ہے اور عالمی بازار میں اپنے اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے ہندستانی کمپنیوں کے لیے ایسی سرٹیفیکیشن خدمات حاصل کرناناگزیر ہے، جس کی تائید وزارت تجارت، حکومت ہندنے خود کی ہے (وزارت تجارت کا نوٹیفکیشن نمبر 25/2022-23 مطالعہ فرمائیں )
یہ فرد اور پروڈکٹ تیار کرنے والی کمپنیوں کے ذاتی انتخاب کا بھی معاملہ ہے جو اپنے اطمینان کے لیے تصدیق کرنے والے ادارے کی تصدیق پر بھروسہ کرتے ہیں۔ نیز یہ عمل صارفین کی بڑی تعداد کو ایسی مصنوعات کے استعمال کرنے سے بچاتا ہے جن کو وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر پسند نہیں کرتے۔ جو لوگ ایسی مصنوعات استعمال نہیں کرنا چاہتے وہ ایسا نہ کرنے کے لیے آزاد ہیں ، لیکن جو لوگ کرنا چاہتے ہیں ، ان کو روکنا ان کے اختیاراور کھانے پینے کے انتخاب کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔حلال سرٹیفیکیشن خدمات ہمارے ملک کے اقتصادی نظام کو بھی کافی تقویت پہنچاتی ہیں۔ ان کی ضرورت صرف ان ممالک میں نہیں ہے، جہاں ہماری مصنوعات اکسپورٹ ہوتی ہیں ، بلکہ ہندستان آنے والے سیاحوں کے لیے بھی ان کی ضرورت ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو بھارت میں اپنے قیام کے دوران حلال مصدقہ مصنوعات تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ وزارت تجارت و صنعت نے ( خط نمبر 03/2023 مورخہ 6 اپریل 2023) میں اپنی طرف سے جاری کردہ پیغام میں وضاحت کی ہے۔ ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم حکومتی ضوابط کی مکمل پابندی کرتے ہیں اور ان امور کا پورا خیال رکھتے ہیں جن کی طرف وزارت تجارت وصنعت کے نوٹیفکیشن میں ر ہ نمائی گئی ہے ، جس میں تمام حلال سرٹیفیکیشن اداروں کے لیے این اے بی سی بی (نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ برائے سرٹیفیکیشن باڈیز) کے تحت رجسٹر ہونا لازمی ہے۔ جمعیت علمائے ہند حلال ٹرسٹ نے اس سنگ میل کو بھی کامیابی سے حاصل کرلیا ہے۔
جمعیت علماءہند حلال ٹرسٹ کے حلال سرٹیفیکیشن نظام کو دنیا بھر کی مختلف حکومتوں اور حکام نے تسلیم کیا ہے۔ ملیشیا (جے اے کے آئی ایم)، انڈونیشیا، تھائی لینڈ (سی آئی سی او ٹی)، سنگاپور (ایم یو آئی ایس)، جنوبی کوریا ایم ایف ڈی ایس، قطر (ایم او ایچ) یواے ای( ای آئی اے سی اور ای ایس ایم اے ایم او آئی اے ٹی) سعودی عرب (ایس ایف ڈی اے ،ایس اے ایس او) تمام جی سی سی ممالک (جی اے سی) نے ہمارے سرٹیفکیٹ کو تسلیم کیا ہے اور ہم ان سے ایکریڈیٹیشن حاصل کر چکے ہیں۔ ہم ورلڈ حلال فوڈ کونسل کے رکن بھی ہیں۔ان تمام توانیائیوں کے ساتھ ہم اپیڈا (ایگریکلچر پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیا) اور دنیا بھر میں ہندوستانی سفارت خانوں کے ساتھ باہمی اشتراک عمل سے ، عالمی منڈی میں ہندوستانی حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کو فعال طور پر فروغ دے رہے ہیں۔یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ اگر ہندستان کو اپنی مصنوعات کسی ملک میں اکسپورٹ کرنا ہے تو اس ملک کی طرف سے مقرر کردہ اصولوں کی پیروی کرنی ہوگی۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تمام مالیاتی لین دین کا صحیح حساب کتاب، جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس کی ادائیگیوں اور مکمل آڈٹ کے ساتھ ہم نے اپنے کاموں کی شفافیت کو یقینی بنایا ہے۔حلال سرٹیفیکیشن کے خلاف جھوٹے دعوے کرنے والے بعض افراد براہ راست ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔
صرف ایف ایس ایس اے آئی کھانے کی مصنوعات کو سرٹیفیکیشن جاری کر سکتا
اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے، انیتا سنگھ نے کہا ، ‘ اس سے قبل حلال سرٹیفیکیشن صرف گوشت کی مصنوعات تک محدود تھا۔ لیکن آج حلال سرٹیفکیٹ ہر قسم کی مصنوعات جیسے تیل ، چینی ، ٹوتھ پیسٹ اور مسالوں کو جاری کیے جا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ ہندوستان میں کھانے پینے کی مصنوعات کی تصدیق سے متعلق تمام ایکٹ کو ختم کردیا گیا ہے اور اس کے لیے فوڈ سیفٹی اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (ایف ایس ایس اے آئی) کو واحد سرکاری ادارہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ایف ایس ایس اے آئی کے علاوہ ، کوئی دوسری ایجنسی یا ادارہ مصنوعات کو سرٹیفیکیشن جاری نہیں کر سکتا۔
حلال سرٹیفکیشن سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی
وکیل ویبور آنند نے اپریل 2022 میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی ، جس میں حلال مصنوعات اور حلال سرٹیفیکیشن پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ 85 فیصد شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے صرف 15 فیصد آبادی حلال سرٹیفیکیشن والی مصنوعات استعمال کر رہی ہے۔ درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنی تمام حلال مصدقہ مصنوعات کو مارکیٹ سے واپس لے لیں۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ ‘ حلال ‘ سرٹیفیکیشن سب سے پہلے 1974 میں ذبح شدہ گوشت کے لیے متعارف کرایا گیا تھا اور یہ 1993 تک صرف گوشت کی مصنوعات پر لاگو تھا۔
