نئی دہلی،24جولائی(ایچ ڈی نیوز)۔
” مرکزی حکومت کا حالیہ بجٹ ہندوستان کے غریبوں، پسماندہ طبقات ، دلتوں، آدی واسیوں اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مایوس کن ہے۔ بجٹ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو آئے بڑھاتا ہے۔ یہ معاشی چیلنجوں کو مستحکم کرنے اور عام ا?دمی کی ضروریات کو پوری کرنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے، اس لئے بجٹ کو عام آدمی کے فائدے کے لئے ہونا چاہئے “۔ یہ باتیں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ” گرچہ اس بجٹ میں چند مثبت پہلو ہیں، جیسے طویل مدتی قرض کی پائیداری کے لیے مالیاتی حکمت عملی اختیار کرنے کی پابندی۔ پچھلے سال ٹیکس میں 1.4 اضافے کے باوجود مفروضہ ٹیکس میں اضافہ کو 1 پر رکھا گیا ہے۔ اثاثوں کی قیمتوں کو اقتصادی اصولوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے متعدد شعبوں میں کسٹم ڈیوٹی میں کمی یا خاتمہ کیا گیا ہے، یقینایہ کچھ راحت کی بات ہے مگر برآمداتی اشیا کے ٹیکسوں کو کم کرنے سے ہندوستانی برا?مدات کو مزید مسابقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہر کیف ،ان مثبت پہلوو¿ں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حالیہ بجٹ 2024-25 غریبوں، پسماندہ، ایس سی ، ایس ٹی اور مذہبی اقلیتوں کے لئے کوئی راحت کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بجٹ معاشرے کے ایک طبقے ہی کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔
صحت کے لیے مختص رقم میں اضافہ کے باوجود اب بھی یہ جی ڈی پی کا 1.88 فیصد ہی ہے۔ اسی طرح تعلیم کے بجٹ میں اضافے کے باوجود جی ڈی پی کا محض 3.07 فیصد ہی مختص کیا گیا ہے۔ جماعت کا مطالبہ ہے کہ صحت کے شعبے کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد اور تعلیم کے لیے 6 فیصد مختص کیا جانا چاہئے۔ بجٹ کو دیکھتے ہوئے حکومت کا نعرہ ” سب کا وکاس“ کھوکھلا لگ رہا ہے، کیونکہ اقلیتوں کے لیے بنائی گئی اسکیموں کی بجٹ میں بہت کمی محسوس کی گئی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اقلیتی امور کی وزارت کے لئے کل بجٹ کا محض 0.06 فیصد ہی رکھا گیا ہے۔ جبکہ اسے کم سے کم 1 فیصد ہونا چاہئے“۔
پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” سرکاری خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کے باوجود بجٹ میں contractionary اپروچ کا مظاہرہ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور عدم مساوات کی صورت حال پیدا کرسکتا ہے۔ سماجی شعبے کے لیے مختص رقم میں کمی کی گئی ہے۔ مثال کے طورپر بے روزگاری بہت ہے، پھر بھی منریگا کے لیے رقم میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ منریگا کو مسلسل نظر انداز کرنا افسوسناک ہے۔ اسی طرح مختلف سبسڈیز میں کٹوتی کی گئی ہے، جیسے فوڈ سبسڈی، فرٹیلائزر سبسڈی اور پٹرولیم سبسڈی وغیرہ۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ بجٹ کارپوریٹس کے حق میں محسوس ہوتا ہے۔ جبکہ کارپوریٹ ٹیکس ریونیو 17 فیصد ہے جو کہ انکم ٹیکس 19 فیصد سے کم ہی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ٹیکس کا زیادہ بوجھ اب بھی غریب اور متوسط طبقے پر ہی ہے۔ ” نئی روزگار پروتساہن یوجنا“ کے تحت روزگار پیدا کرنے کے نام پر کارپوریٹس کو بھاری سبسڈی دی جارہی ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ فلاح و بہبود کے نام پر فنڈز فراہم کرنے کےلئے بدعنوانی پر لگام کسنے کے ساتھ ہی امیروں پر ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کو کم کرکے مہنگائی کو کم کرنے کی حکمت اختیار کی جانی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ دلتوں، پسماندہ طبقات، ایس سی ، ایس ٹی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔ ہمارے بجٹ کا 19 فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ ہمیں قرض سے بچنا چاہئے اور اپنی معیشت کو سود سے پاک بنانے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلا سودی مائیکرو فنانس اور سود سے پاک بینکنگ نظام کو فروغ دے۔ اس سے جہاں معیشت کو ترقی ملے گی، وہیں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سماجی عدم مساوات میں کمی آئے گی۔