محمد ارشد ربانی
اس خطۂ ارضی پر موجود لوگ آئے دن مختلف حالات و واقعات کے ساتھ دو چار ہوتے رہتے ہیں، بسا اوقات حالات موافق جہت رواں ہوتی ہے تو بسا اوقات مخالف سمت سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے، لیکن ہر حالات و کیفیات کا مقابلہ کرنا اور ناموافق ہونے کی صورت میں اس کی بہتری کی کوشش کرنا اور اس کو اپنے لئے سبق آموز سمجھنا اور دفاع کی حتی المقدور کوشش صرف کرنا ایک زندہ و باکمال انسان کا امتیازی وصف ہے، اور ان شواہدات و واقعات کو قلم و قرطاس کی نظر کرنا ایک متحرک، فعال، اور بہادر شخص کا کام ہے؛ کیوں کہ تاریخ ماضی کی روداد ہوتی ہے، اور ہمارے مستقبل کا آئینہ دار بھی، نیز آئندہ نسلوں کے لئے قیمتی نشان عبرت بھی ثابت ہوتا ہے، چوں کہ ماضی کی تاریخ کو فراموش کر مستقبل کے ہدف کو طے کرنا بے سود، بے معنی بلکہ گھاتک ثابت ہوتا ہے، لیکن تاریخ کو رقم کرنا نیز اس کو مع حوالہ جات ضبط کرنا شدید المشقة اور انتھک کوشش کا متقاضی ہے؛ اس لئے ہر صاحب قلم اور ہر صاحب فکر و نظر اس کے درپے ہو جائے یہ ممکن نہیں ہے، اور زمانہ طالب علمی میں ہر کس و ناکس اس گراں قدر ذمہ داری کا متحمل نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کام کے لئے مضبوط دل، جواں حوصلہ اور قوم و ملت کے سود و زیاں کا کامل علم ضروری ہے تاکہ حالات کی نزاکت کو سپرد قلم کرنا آسان ہو۔
ایسے بہادر، دلیر، جاں باز، شجاع، صاحب ہمت، عالی حوصلہ، اولو العزم مفکر میں سے “مفتی عبد الرحمن قاسمی” ہیں، جن کی محنت، لگن، جذبہ، اور حوصلہ کو داد تحسین دینا ہمارا اخلاقی و دینی فریضہ ہے تاکہ ایسے باحوصلہ اور جواں مرد، نوجوان صاحب قلم اپنے فکر و نظر سے قوم کے در پیش مسائل و چیلنجز کو منصۂ شہود پر بلا جھجھک پیش کرنے کی جرأت و جسارت کرتا رہے۔
موصوف کی کتاب” سی، اے، اے، این، آر، سی تحریک” ان کی محنت و بہادری کی زندہ مثال ہے، جو یقینا مستقبل میں مصادر و مآخذ کا درجہ پا لے گا، چوں کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ حالات و واقعات کا مکمل احاطہ کیا ہے، بلکہ اس کالے قانون کی پوری وضاحت، مستقبل کے خدشات اور حکومت کے ناپاک ارادوں کو مکمل اجاگر کیا ہے، نیز ان تمام کو مع حوالہ جات نقل کرکے اس میں اس قدر استحکام و پختگی پیدا کر دی ہے کہ اسے یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ایسے صحافی اور ان کے کارنامہ کو بنظر تحسین دیکھتے ہوئے مختلف تنظیم و جماعت کو آگے بڑھ کر حوصلہ بڑھانا چاہئے اور ان کو کسی ایوارڈ سے ضرور سرفراز کیا جانا چاہئے، یہ ان کی محنت کی صحیح قدر دانی اور اس کتاب کو مرتب کرنے میں پیش آمدہ پریشانی کا درست و حوصلہ افزا عمل شمار ہوگا۔
تقریبا چھ سالوں سے موصوف کی محنت و جاں فشانی کا عینی شاہد رہا ہوں اور ہمہ وقت غور و فکر میں مستغرق رہنا اور علم دوست بننا ان کا خاص وصف ہے، اور دوران تعلیم ہی اس مدلل کتاب کا منظر عام پر پیش کرنا اور اس قدر شہرت و مقبولیت پانا اس پر واضح ثبوت و روشن دلیل ہے
اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے تاکہ موصوف کی محنت کا اندازہ لگایا جا سکے نیز شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کو سلام اور بے جرم و خطا سلاخوں میں بند اور اس تحریک میں شہید ہونے والے شہداء کی بے مثال قربانیوں کو یاد کیا جا سکے
خداوند موصوف کی محنت کو شرف قبولیت سے نوازے اور مستقبل میں مزید جواں مردی سے ان سے کام لیتا رہے( آمین)