9.1 C
Delhi
December 13, 2024
Hamari Duniya
دہلی

یہ ملک ہمارا ہے اوراس کی تعمیر وترقی کا کام بھی ہماری ذمہ داری ہے: توفیق اسلم خان

Jamat-e-Islami

نئی دہلی 31اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)۔

’’یہ ملک ہمارا ہے، ہم نے اسے آزادی دلوائی ہے۔اس کی تعمیر وترقی کا کام بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔یقین جانئے یہ کام صرف ہم ہی کر سکتے ہیں۔ صرف ہمارے پاس وہ نسخہ ہے جس سے اس ملک کی اصلاح ہو سکتی ہے۔پہلے بھی اس ملک کو سونے کی چڑیا ہم نے ہی بنایا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ امن وعافیت اور ترقی وخوشحالی مسلم دور حکومت میں رہی ہے۔یہ ہماری غفلت ہے کہ آزادی دلوانے کے بعد ہم خاموش تماشائی بن کر ملک کی تباہی کا نظارہ کرنے لگے۔ہمارا یہ رویہ درست نہیں ہے۔ عزیز ساتھیو! ملک اور اہل ملک دونوں کو ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر ملک کی تعمیر وترقی میں عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ ہمارے استحکام کے لئے بھی ضروری ہے۔‘‘
انتہائی حوصلہ افزا اور مشفقانہ انداز میں یہ باتیں جماعت اسلامی ہند کے ڈائرکٹرتوسیع و استحکام جناب توفیق اسلم خاں نیمقامی جماعت ذاکر نگر کے ارکان ، کارکنان اور دیگر متوسلین کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم تاریخ کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں،جہاں ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تعلیم وتربیت، صنعت وتجارت، سائنس وٹکنولوجی، میڈیا اور دیگر وسائل ابلاغ اور سیاست وملک گیری تمام میدانوں میں کام کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے ان تمام کاموں کو کرنے کے لئے ہمیں اپنی افرادی قوت اور وسائل میںخاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ کام مشکل ضرور ہے اور اس طرح کا کام مشکل ہی ہوا کرتا ہے۔خالق کائنات کا یہ اصول ہے کہ وہ کسی بھی قوم کو انتداب اور بالادستی طشت میں سجا کر نہیں دیتا، اس کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ جب کسی کو خلیفہ بنایا جاتا ہے تو اسے اپنے اختیارات کا ایک حصہ بھی دیا جاتا ہے۔اللہ نے انسانوں بے شمار اختیارات دے رکھے ہیں۔ ہمیں ان اختیارات کا استعمال مثبت اور تعمیری کاموں میں کرنا ہے۔ہمیں اس یقین کے ساتھ یہ جدوجہد کرنی ہے کہ ہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔یقین اور مثبت سوچ کی قوت بہت بڑی قوت ہوتی ہے۔فرعون کی غلامی سے رہائی کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل کے لئے تمام نعمتیںایک خاص سرزمین میں جمع کر دی تھیںاور پھر اس کے حصول کے لئے بنی اسرائیل کو وہاں کے مکینوں سے لڑنے کا حکم دیا تھا۔ بنی اسرائیل نے بزدلی دکھائی اور ان نعمتوں سے محروم رہے۔اس واقعہ کو اللہ نے قرآن میں اس لئے درج کیا ہے کہ ہم اس سے سبق لیں اور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام برادرانِ وطن کو اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لانا ہماری سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ ظلم وجبر، قتل وغارت گری،انسان اور انسان کے بیچ تفریق، استحصال، غربت وافلاس،بدعنوانی و بد نظمی اور ہر طرح کے جرائم کے عام ماحول سے پرْ سماج کا حصہ بنے رہنا ایمان والے کے شایان شان نہیں ہے۔ ہمیں انہیں اسلامی اصولوں پر قائم سکون وعافیت اور خوشحالی وبرکت بھرا سماج دینا ہے۔ اس کے لئے ہمیں ان کا ذہن بدلنا ہوگا اور اسلام کی صحیح تعلیم اس کے عملی نمونے کے ساتھ اہل وطن کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔
یہ پوچھے جانے پر کہ ملک میں موجود نفرت اور بے اعتمادی کے اس ماحول میں اہل وطن کے سامنے اسلام کی دعوت لے کر جانا خطرناک نہیں ہے؟، انہوں نے کہا کہ آپ مفروضے پر بات نہ کریں ، اپنا تجربہ بتائیں۔کیا کسی کو اس کام میں کوئی دشواری پیش آئی ہے؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کام میں کوئی دشواری نہیں آسکتی۔میرا تجربہ تو یہ ہے کہ آج دعوت کے لئے حالات زیادہ سازگار ہیں۔نفرت کی فضا تو ایک گروپ نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے بنا رکھی ہے، عوام کے درمیان ایسی نفرت کہیں نہیں پائی جاتی۔بس یہ ہمارے اندر کا خوف ہے جس نے ہمیںبزدل بنا دیا ہے۔سچائی یہ ہے کہ فضا باہر کی نہیں اندر کی خراب ہے۔ملک کے مختلف حصوںمیں ہمارا تجربہ تو یہ ہیکہ جب بھی کسی برادر وطن کے سامنے اسلام بحیثیت ایک مکمل نظام زندگی پیش کیا جاتا ہے، تو وہ اس کا اثر قبول کئے بغیر نہیں رہتا، بلکہ اکثر افراد تو یہ شکایت کرتے ہیںکہ یہ باتیں ہمیں پہلے کیوں نہیں بتائی گئیں۔
جناب توفیق اسلم صاحب نے بتایا کہ ہمیں تعمیری کام کر کے دکھانے ہوں گے ، تبھی ہماری بات سنی جائے گی۔دنیا کا قاعدہ ہے کہ یہاں کمزوروں کی بات نہیں سنی جاتی۔ جب ہمارے توسط سے معاشرے میں خوش حالی آئے گی تو خود بخود لوگوں کی توجہ ہماری طرف مبذول ہوگی۔ پھر ہماری بات سنی بھی جائے گی اور مانی بھی جائے گی۔
آج ہمارا حال یہ ہے ہم صنعت وتجارت میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم میں سے جولوگ تجارت کرتے بھی ہیں وہ تجارت نہیں ہے ، ایک طرح کی ملازمت ہے، فرق یہ ہے کہ وہ ملازمت کسی اور کے یہاں نہیں خود اپنے پاس کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوری زندگی صبح سے شام تک محنت کرنے کے باوجود ایک تاجر ہینڈ ٹو ماوتھ کی حالت سے باہر نہیں نکلتااور اس کی مصروفیت اس قدر ہوتی ہے کہ دوسرے کئی اہم اور ضروری کام بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔اسلام دولت کے ارتکاز سے روکتا ہے،دولت کمانے اور خرچ کرنے سے نہیں روکتا ، بلکہ دولت کی روانی کو پسند کرتا ہے۔اللہ کے نبیوں میں سے کئی انبیاء  اپنے وقت کے بادشاہ رہے ہیں۔کئی صحابہ کرام کاشماربھی اپنے زمانے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا، جن کے کاروبار کئی مملک میں پھیلے ہوئے تھے۔جماعت اسلامی ہند نے اس سلسلے میں رفاہ چیمبر ا?ف کامرس کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کرکے کام شروع کیا ہے ، جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔انہوں نے تمام ارکان کارکنان اور دیگر متوسلین کو مشورہ دیا کہ وہ جماعت اسلامی ہند کے مرکز جاکررفاہ چمبر ا?ف کامرس کا دورہ کریں ، ذمہ داروں سے ان کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھیں پھر اپنے اپنے علاقہ میں رفاہ کے نمائندے کو بلا کر کاروبار کرنے والے افراد سے ان کی ملاقاتیں کروائیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے بتایا کہ مرکز میں مختلف نوعیت کے 58 شعبے قائم ہیں۔ ا?پ لوگ وقت نکال کر ان تمام شعبوں کا دورہ کریں ، ان کے ساتھ تعاون کریںاور اپنے اپنے مقام پر لوگوں کو اس سے مستفید کرائیں۔
حکومت عوام کی فلاح وبہبود کے لئے طرح طرح کی اسکیمیں چلاتی ہے۔ہماری عام شکایت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ان اسکیموں کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ سچائی یہ ہے مسلمان فائدہ اٹھانا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے لوگوں کو نہ ان اسکیموں کی جانکاری ہوتی ہے اور نہ ہی لوگ اس کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی ہند کی جانب سے اس کے لئے جگہ جگہ’’ ناگرک سیوا کیندر‘‘ قائم کئے گئے ہیں، جس کا اصل کام عوام کی سرکاری اسکیموں تک رسائی کرانا ہے۔آپ بھی جماعت کے تعاون سے اپنے علاقے میں ناگرک سیوا کیندر قائم کر کے بڑی تعداد میں لوگوں کو فیض یاب کرا سکتے ہیں۔ سود ہمارے سماج کی ایک بڑی لعنت ہے ، پورا سماج اس میں جکڑا ہوا ہے۔

سود کے ذریعہ سرمایہ دار غرباء کا استحصال کر رہے ہیں۔سماج کو اس سے نجات دلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ہم یکسراسے ختم تو نہیں کرسکتے مگر ایک متبادل پیش کر کے لوگوں کی توجہ ضرور مبذول کرا سکتے ہیں۔ملک کا قانون ہمیں بلا سودی نظام کے تحت بینک کھولنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن ہم کریڈٹ سوسائیٹیاں قائم کر سکتے ہیں ان کے تحت بھی کچھ حدود کے ساتھ بینکوں کی طرح ہی پیسوں کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔مہاراشٹر میں ہم نے اس طرح کے کئی تجربے کئے، جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔وہاں درجنوں کریڈٹ سوسائیٹیاں کام کر رہی ہیں، جو کروڑوں روپیے کا کاروبار کرتی ہیں۔بلاسودی قرضوں نے ہزاروں چھوٹے کاروباریوں کے کاروبار کو مستحکم بنا دیا اسی طرح چالک کو مالک بنا دیا۔سود کے جنجال میں پھنس کر بڑی تعداد میں کسان خودکشی کرتے تھے ، ان کریڈٹ سوسائیٹیوں کی برکت سے خودکشی کی شرح بہت کم ہو گئی۔ہزاروں گھروں میں خوشیوں کے دیپ جلے۔ یہاں تک کہ انتظامیہ نے اس کام کی تحسین کی اور کئی جگہ ان سوسائیٹیوں کو انعام سے بھی نوازا۔کریڈت سوسائیٹیوں کے اس تجربہ کو ملک کے مختلف حصوں میں بھی دہرانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر دہلی میں۔دہلی میں ہونے والے کاموں عکس پورے ملک میں نظر ا?تا ہے۔ جامعہ نگر میں بھی اس طرح کی ایک ونڈو شروع کی گئی ہے ، ضرورت ہے عوام کواس سے واقف کرانے کی۔
شعبہ خواتین کے ساتھ نشست کے دوران ڈائرکٹر توسیع واستحکام نیگھر میں خوش حالی لانے ،افراد خانہ کو صحت مند رکھنے ، بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری پوری کرنیاور رشتہ داریاں نبھانیکی تجویزوں پر گفتگو کی۔انہوں نے بتایا کہ اپنی تمام گھریلو ذمہ داریاں پوری کرنیاور حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ خواتین ملک کی تعمیر وترقی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

Related posts

جامع مسجد میں لڑکیوں کے داخلے پر تنازعہ,شاہی امام کی وضاحت

Hamari Duniya

بٹلہ ہاؤس  میں یونانی دواؤں کے ایک اور  نئے مرکز’شفا یونانی دواخانہ‘کا افتتاح 

Hamari Duniya

ایران کلچرہاوس نئی دہلی میں ’ مجلس قدردانی شہدائے خدمت‘ کے عنوان سے تعزیتی پروگرام کا انعقاد

Hamari Duniya