حیدرآباد (ایچ ڈی نیوز)۔
متنازعہ بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو منگل کی شام، نامپلی فوجداری عدالت نے سماعت کے بعد مشروط ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پہلے عدالت نے ٹی راجا سنگھ کو 14دن کی عدالتی حراست میں بھیجنے کا حکم دیا تھا لیکن بعد میں ریمانڈآرڈر واپس لیتے ہوئے اسے ضمانت دے دی۔ پولس نے ٹی راجا سنگھ کو حیدرآباد کے نام پلی کورٹ میں پیش کیا تھا۔جس کے بعد حیدرآباد میں زبردست احتجاج ومظاہرہ شروع ہوگیا ہے۔
دریں اثنا بی جے پی کے ریاستی صدر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو محمد پیغمبرﷺ کے بارے میںمتنازعہ ریمارکس کے بعد پارٹی نے معطل کر دیا ہے۔ پارٹی نے اسے وجہ بتاو¿ نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔واضح رہے کہ منگل کی صبح پولس نے تلنگانہ کی گوشا محل اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو ایک مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، نفرت پھیلانے اور فسادات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کر لیاتھا۔ پولیس نے اس کے خلاف کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اس کے بعد حیدرآباد پولیس نے اسے سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان نامپلی میٹروپولیٹن کریمنل کورٹ میں پیش کیا۔ پروڈکشن کے دوران، ہزاروں کارکن بڑی تعداد میں ایم ایل اے کی حمایت میں عدالت کے باہر جمع ہوئے۔ عدالت نے سماعت کے دوران پولیس کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے پولیس کی جانب سے سی آر پی سی کی دفعہ 41 کے تحت نوٹس نہ دینے پر اعتراض کیا اور اس بنیاد پر ایم ایل اے کو مشروط ضمانت دینے کا حکم دیا۔ عدالت نے انہیں اشتعال انگیز بیانات نہ دینے کی ہدایت کی ہے۔
دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی نے متنازعہ بیان پر سخت کارروائی کرتے ہوئے تلنگانہ کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو پارٹی سے معطل کر دیا ہے۔ انہیں وجہ بتاو¿ نوٹس بھیجا گیا ہے اور 10 دن میں جواب طلب کیا گیا ہے کہ انہیں پارٹی سے کیوں نہ نکالا جائے۔ اس کے علاوہ بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف بھی انکوائری قائم کی گئی ہے۔مقامی بی جے پی لیڈروں کا خیال ہے کہ راجہ کے بیان سے پارٹی کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پارٹی نے حیدرآباد میں منعقدہ قومی ایگزیکٹیو میں مسلمانوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کی بات کی تھی۔ قومی سطح پر پروگرام چلا کر مسلم کمیونٹی کے لوگوں تک رسائی بڑھانے کی کوششیں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ نوپور شرما کے واقعہ کے بعد بی جے پی نے لیڈروں اور ترجمانوں سے کہا تھا کہ وہ اس پر خاموشی اختیار کریں اور کسی خاص طبقے پر منفی تبصرہ نہ کریں۔
previous post