نئی دہلی، 18 اپریل(ایچ ڈی نیوز)۔
آج سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرا چو رکی قیادت میں پانچ رکنی آئینی بنچ کے سامنے ہم جنس پرستوں کی شادی کا مسئلہ زیر بحث رہا۔ اس موقع پر جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے سینئر وکیل سبل نے کہا کہ ایسی شادیوں کے بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔مسٹر سبل نے عدالت کو بتایا کہ یہ مسئلہ دیگر عائلی قوانین مثلاً وراثت، جانشینی، گود لینے اور مختلف کمیونٹیز کی پرسنل لا زکو بھی متاثر کرے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر عدالت اس معاملے کو سننا چاہتی ہے تو تمام ریاستی حکومتوں کو اس معاملے میں فریق بنایا جائے اور ان کی بات بھی سنی جائے۔ آخر میں مسٹر سبل نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالتوں کو اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے، کیوں کہ پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلیاں قانون بنانے کی مجاز ہیں۔ اس مقدمے میں جمعیۃ کے وکیل کپل سبل کو ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد اور ایڈوکیٹ نیازاحمد فاروقی اسسٹ کررہے ہیں۔مذکورہ گذارشات سننے کے بعد، دوسرے فریق نے یہ واضح کیا کہ اگر ایسا ہے تو پرسنل لا کے مسائل پر تجاوز نہیں کیا جائے۔ کچھ غور و خوض کے بعد، عدالت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ کسی بھی مذہبی فرقے کے پرسنل لا کے معاملے کو یہاں زیر بحث نہیں لائے گی اوراس مسئلے کا تجزیہ اسپیشل میرج ایکٹ 1955 کے پس منظر میں کیا جائے گا۔
اس معاملے پرعدالت نے مسٹر سبل سے گزارش کی کہ وہ تمام پٹیشنرز اور مرکزی حکومت کے دلائل پیش ہونے بعد آخری مرحلے میں عدالت کی مدد کریں۔بعد ہ عرضی گزار کے سینئر وکیل مکل روہتگی نے مذکورہ مسئلہ پر اپنی دلیلیں پیش کیں۔اس درمیان عدالت اور مرکزی سرکار کے وکیل کے درمیان کافی گرما گرم بحث ہوئی۔