نئی دہلی(ایچ ڈی نیوز)۔
سپریم کورٹ نے کرناٹک حجاب کیس پر سماعت مکمل کرنے کے بعد جمعرات کو فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بنچ نے اس معاملے کی 10 دن تک سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے حجاب کے حامی درخواست گزاروں کے علاوہ کرناٹک حکومت اور کالج اساتذہ کے دلیلیں سنیں۔21 ستمبر کو سماعت کے دوران کرناٹک حکومت کے علاوہ کالج کے اساتذہ سے بھی جرح کی گئی جنہوں نے کالج میں حجاب پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت نے کرناٹک حکومت سے حجاب کے پیچھے کی سازش کے معاملے میں داخل چارج شیٹ اور سرکلر میں لکھے کنڑ الفاظ کے ترجمہ کی کاپی مانگی۔ سماعت کے دوران کرناٹک حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نواڈگی نے کہا کہ حجاب ایک لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔ قرآن میں اس کا محض ذکر سے وہ دین کا لازمی حصہ نہیں ہوجاتا۔ قرآن میں لکھے گئے ہر لفظ کو واجب روایت نہیں کہا جا سکتا۔
اس پر جسٹس گپتا نے کہا کہ حجاب کے حامی فریق کا ماننا ہے کہ قرآن میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ اللہ کا حکم ہے۔ اس پر یقین کرنا لازم ہے۔ پھر نواڈگی نے کہا کہ ہم قرآن کے ماہر نہیں ہیں ، لیکن سپریم کورٹ کا خود پرانا فیصلہ ہے کہ قرآن کا ہر لفظ مذہبی ہو سکتا ہے ، لیکن ضروری نہیں کہ یہ لازمی مذہبی روایت ہو۔جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کو جانتا ہوں ، وہ بھی بھارت آیا کرتے تھے۔ میں نے ان کی لڑکیوں کو کبھی حجاب پہنے نہیں دیکھا۔ جب میں یوپی اور پٹنہ جاتا ہوں تو بہت سے مسلم خاندانوں سے بات چیت ہوتی ہے۔ میں نے کبھی کسی عورت کو حجاب پہنے نہیں دیکھا۔20 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران ، درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل دشینت دیو نے کہا کہ حجاب مسلم خواتین کے وقار کو بڑھاتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 21 کے تحت ایک محفوظ حق ہے۔ دیو نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مکمل طور پر ناقابل قبول اور غیر قانونی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ دفعہ 14، 19، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ایک لازمی مذہبی عمل کی بنیاد پر عوامی مقامات پر حجاب پہننے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے میں غلطی کی۔کرناٹک حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ 2021 سے پہلے کسی بھی مسلم لڑکی نے حجاب نہیں پہنا تھا اور ایسا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ حکومت نے صرف حجاب پر پابندی عائد کی ہے ، دیگر برادریوں کے لوگوں کو بھی زعفرانی رومال پہننے سے روک دیا گیا ہے۔ مہتا نے کہا کہ 2022 میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے سوشل میڈیا پر حجاب پہننے کی مہم شروع کی۔ اس طرح کے پیغامات سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے۔ حجاب پہننا بچوں کا فیصلہ نہیں تھا۔ بچے اس کے مطابق کام کر رہے تھے جو انہیں سمجھایا گیا تھا۔
حجاب کے حامی وکلاءکی حمایت میں سکھ پگڑیوں کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے مہتا نے کہا تھا کہ سکھوں کے معاملے میں پگڑی اور کڑا ان کی لازمی مذہبی روایت ہے۔ آپ ان کے بغیر دنیا کے کسی کونے میں سکھ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مہتا نے اپنے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حجاب اسلام کی لازمی مذہبی روایت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ درخواست گزار ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے جس سے یہ ثابت ہو کہ حجاب شروع سے ہی دین اسلام کا حصہ رہا ہے یا اس مذہب میں اسے پہننا بہت ضروری ہے۔ مہتا نے ایران میں حجاب کے خلاف خواتین کی لڑائی کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران جیسے کئی اسلامی ممالک میں خواتین حجاب کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ اس لیے میں دلیل دیتا ہوں کہ حجاب اسلام کی لازمی مذہبی روایت نہیں ہے۔19 ستمبر کو سماعت کے دوران دشینت دیو نے کہا تھا کہ معاملہ صرف ڈریس کوڈ کا نہیں ہے ، یہاں نیت الگ ہے۔ اس ڈریس کوڈ کو نافذ کرکے حکومت مسلم کمیونٹی کو بتانا چاہتی ہے کہ ہم جو کہیں گے ، آپ کو کرنا پڑے گا۔ ہم نے حجاب پہن کر کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ دیو نے دستور ساز اسمبلی میں سردار پٹیل کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ اقلیتیں اکثریت پر اعتماد رکھیں۔ آج کل لوگ گاندھی کو بھول کر سردار پٹیل کی بات کرتے ہیں ، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سردار پٹیل خود بہت سیکولر تھے۔