نئی دہلی(ایچ ڈی نیوز)۔
کرناٹک حجاب معاملے پر سپریم کورٹ نے منقسم فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک حکومت کے حجاب پر پابندی کے حکم کو برقرار رکھا جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کرناٹک حکومت کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ منقسم فیصلے کی وجہ سے اب یہ معاملہ تین ججوں کی بنچ کو ریفر کر دیا گیا ہے۔
گذشتہ22 ستمبر کو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بنچ نے اس معاملے کی 10 دن تک سماعت کی تھی۔ اس دوران عدالت نے حجاب کے حامی درخواست گزاروں کے علاوہ کرناٹک حکومت اور کالج اساتذہ کے بھی دلائل سنے۔
گذشتہ21 ستمبر کو کرناٹک حکومت کے علاوہ کالج کے اساتذہ کی جانب سے جرح کی گئی تھی جنہوں نے کالج میں حجاب پہننے سے منع کیاتھا۔ سماعت کے دوران کرناٹک حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نواڈگی نے کہا تھا کہ حجاب ایک لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔ قرآن میں اس کا محض ذکر اسے دین کا لازمی حصہ نہیں بناتا۔ قرآن میں لکھے گئے ہر لفظ کو لازمی روایت نہیں کہا جا سکتا۔ تب جسٹس گپتا نے کہا تھا کہ حجاب کے حامی فریق کا ماننا ہے کہ قرآن میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ اللہ کا حکم ہے۔ اس پر یقین کرنا لازمی ہے۔ تب نواڈگی نے کہا تھا کہ ہم قرآن کے ماہر نہیں ہیں، لیکن سپریم کورٹ کا خود پرانا فیصلہ ہے کہ قرآن کا ہر لفظ مذہبی ہو سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ لازمی مذہبی روایت ہو۔
20 ستمبر کو سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل دشینت دوے نے کہا تھا کہ حجاب مسلم خواتین کے وقار کو بڑھاتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 21 کے تحت ایک محفوظ حق ہے۔ دوے نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مکمل طور پر ناقابل قبول اور غیر قانونی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ دفعہ 14، 19، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے لازمی مذہبی روایت کی کسوٹی پر عوامی مقامات پر حجاب پہننے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے میں غلطی کی۔
کرناٹک حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ 2021 سے پہلے کوئی مسلمان لڑکی حجاب نہیں پہنتی تھی۔ اور نہ ہی ایسا کوئی سوال پیدا ہوا۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ حکومت نے صرف حجاب پر پابندی عائد کی ہے، دیگر کمیونٹیز کے لوگوں کو بھی زعفرانی گمچھا پہننے سے روکا گیا ہے۔ مہتا نے کہا تھا کہ 2022 میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے سوشل میڈیا پر حجاب پہننے کی مہم شروع کی تھی۔ اس طرح کے پیغامات سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے۔ حجاب پہننا بچوں کا فیصلہ نہیں تھا۔ بچے اس حساب سے کام کر رہے تھے جو انہیں سمجھایا گیا تھا۔
حجاب کے حامی وکلا کی حمایت میں سکھ پگڑیوں کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے مہتا نے کہا تھا کہ سکھوں کے معاملے میں پگڑی اور کڑا ان کی لازمی مذہبی روایت ہے۔ آپ ان کے بغیر دنیا کے کسی کونے میں سکھ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مہتا نے اپنے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حجاب اسلام کی لازمی مذہبی روایت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ درخواست گزار ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے جس سے یہ ثابت ہو کہ حجاب شروع سے ہی دین اسلام کا حصہ رہا ہے یا اس مذہب میں اسے پہننا بہت ضروری ہے۔ مہتا نے ایران میں حجاب کے خلاف خواتین کی لڑائی کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران جیسے کئی اسلامی ممالک میں خواتین حجاب کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ اس لیے میری دلیل ہے کہ حجاب اسلام کی لازمی مذہبی روایت نہیں ہے۔