مشرف شمسی
سپریم کورٹ نے نفرت والے بیان پر سخت رخ اپنانے کے بعد بھی دلّی کے جنتر منتر پر دھرم سنسد کا بلایا جانا اور اس پروگرام میں صاف صاف ہندوو¿ں سے اسلحہ سے لیس ہونے کے لئے کہنا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے عام استعمال کی بات کیئے جانے کے باوجود اس پورے معاملے میں پولس خاموش تماشائی بنی رہی ہے۔صرف دلّی کی دھرم سنسڈ میں ہی نہیں اس سے پہلے ممبئی میں لو جہاد اور دوسرے معاملے کو لیکر بھی باضابطہ جلوس نکالا گیا اور اس جلوس میں نفرت والے نعرے لگائے گئے۔اس معاملے میں بھی پولس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ سپریم کورٹ اس نفرت والے بیان پر سخت سے سخت تر الفاظ میں پولس کی سرزنش کرتی رہی ہے اور اس سرزنش کا اثر بھی پولس پر ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔سپریم کورٹ اس نفرت والے بیان پر پولس کمشنر کے خلاف کارروائی بھی کرتی ہے تو بھی یہ نفرت کے پروگرام کم سے کم 2024 کے لوک سبھا چناو¿ تک رکتے نظر نہیں آتے ہیں اور اس سال تو دس اہم ریاستوں میں اسمبلیوں کے چناو¿ ہونے جا رہے ہیں۔بی جے پی کے پاس چناو¿ جیتنے کا ایک ہی کامیاب آزمودہ فارمولہ ہے وہ مذہب کے نام پر سیاست ہے۔مذہب کے نام پر سیاست کامیاب تبھی ہوتی ہے جب ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت پیدا کر کے ا±کسایا جاتا ہے اور اس نفرت کے ذریعے بی جے پی اپنے حق میں ووٹ کی فصل کاٹتی رہی ہے۔
بی جے پی کا یہ فارمولہ کامیاب بھی رہا ہے۔اب یہ نفرت کی سیاست اور تیز کیئے جانے کی ا±مید ہے کیونکہ اڑانی کے معاملے میں وزیر اعظم مودی کا چہرہ ہے نقاب ہو چکا ہے۔وزیر اعظم مودی ہنڈن برگ کے لگائے گئے الزام پر کوئی بھی جانچ کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہاں تک کہ ماریشس کی شیل کمپنی جو نینانوے فیصدی سے زیادہ اپنا پیسہ اڑانی کی کمپنی میں لگاتا ہے جبکہ اڑانی کے پاس بھارت کے سارے اسٹریٹجک یعنی بندرگاہ، ایئرپورٹ اور اسلحہ بنانے کے کام ہیں۔اسلئے سرکار کو اس کمپنی کی جانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ آخر ماریشس کی اس شیل کمپنیوں میں کس کے پیسے ہیں۔بھارت کی مین سٹریم کی میڈیا مودی اور اڑانی کو بچانے کی پوری کوشش میں لگی ہوئی ہے۔واٹساپ یونیورسٹی میں جو کہانی پھیلائی جارہی ہے اسی کہانی کو مین سٹریم میڈیا بھی لوگوں کو بتا رہی ہے لیکن یو ٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا میں اڑانی کے اصل گھپلے کی کہانی پر بات ہو رہی ہے۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے ذریعے غیر ملکی میڈیا میں ہینڈن برگ کی رپورٹ پر مختلف ممالک میں اڑانی کے خلاف کیا کاروائی ہو رہی ہے وہ سب بھارت کے لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔
ہنڈین برگ رپورٹ کے بعد سے ہی مرکزی سرکار بوکھلا گئی ہے۔اس پورے معاملے میں سرکار کو نکلنے کا راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔اس معاملے سے پہلے بہار کی سرکار نے ذات کی بنیاد بنا کر مردم ش±ماری شروع کی ہے۔اس مردم ش±ماری کی وجہ سے بھی بی جے پی پریشان ہے کیونکہ اس سے یہ پتہ چلےگا کون ذات سرکاری عہدے پر اپنی آبادی سے زیادہ ہے اور کس ذات کے پاس زمین اور دولت زیادہ ہے۔اس پریشانی کو بی جے پی ابھی حل نہیں کر پائی تھی کہ رام چرتر مانس پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔رام چاریتر مانس پر جس طرح سے تنازعہ آگے بڑھتا جا رہا ہے اور اس تنازعہ کی کاٹ بی جے پی کے پاس صرف مذہبی لام بندی ہے یا یوں کہیں بی جے پی کو چناو جیتنے کے لئے ہمیشہ کی طرح ایک کارگر ہتھیار مذہب کی سیاست ہے اور اس سیاست کو کامیاب بنانے کے لئے سماج میں مسلمانوں کے خلاف ہیجان پیدا کرنا ہے۔اسلئے بی بی سی کی ڈاکومنٹری آ جائے جس میں مودی کے فاسسٹ چہرہ کو دکھایا گیا ہے یا ہنڈین برگ کی رپورٹ آئے یا پھر رام چریٹر مانس کا تنازعہ یہ ساری باتیں بے اثر ثابت ہوگی جب پورے ملک میں ایک حکمت عملی کے تحت نفرت کا ماحول بنایا جائے گا۔منہگائی اور ہے روزگاری کے معاملے سب اپنے آپ ختم ہوتے نظر آئین گے۔خاص کر ان ریاستوں میں نظر رکھے جانے کی ضرورت ہے جن ریاستوں میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہونے کی امید ہیں۔
بہار،مہاراشٹر اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں کھل کر نفرت کا ماحول بنائے جائیں گے۔سرکار سے یہ امید کرنی فضول ہے کہ وہ کسی بھی ریاست میں نفرت کے ماحول کو پنپنے سے روکیگی یا نفرت پھیلانے والے خلاف کسی طرح کی کارروائی کریگی۔ نفرت کے خلاف سپریم کورٹ اگر سخت احکامات جاری بھی کرتی ہے تو حالات کچھ کنٹرول میں آ سکتے ہیں۔ورنہ جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جائیں گے ہندوتوا طاقتیں ماحول کو گرم کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوائیں گی اور اس ماحول کو اور گرم کرنے میں مین سٹریم میڈیا ساری حدیں پار کر جائیگی۔کیونکہ مین سٹریم میڈیا کو معلوم ہے کہ مودی جی کی سرکار خدا نخواستہ تبدیل ہو گئی تو ا±نکی بھی خیر نہیں ہے۔حالانکہ جس طرح سے حزب اختلاف میں یک ج±ٹ نہیں ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ بی جے پی کو 2024 میں بھی شکست دینا ممکن نہیں ہے۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787