صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے فیصلے کا استقبال کیااور کہاعدالت کے فیصلے سے شادی کے مقدس اور پاکیزہ نظام کی حفاظت ہوئی ہے۔ جمعیۃ کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل نے نمائندگی کی
نئی دہلی 17 اکتوبر 23 :سپریم کورٹ نے اپنے اہم تاریخی فیصلے میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اپریل اور مئی کے درمیان فریقین کے دلائل سننے کے بعد آج اس بارے میں فیصلہ سنایا ہے۔
اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند، نیشنل چائلڈ رائٹس سمیت متعدد سماجی ، سرکاری اورمذہبی تنظیمیں فریق تھیں ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے معروف وکیل کپل نے سماجی اور مذہبی نقطہ نظر سے ٹھوس دلائل پیش کیے تھے اور اول مرحلے میں عدالت کو قائل کیا تھا کہ ایسی شادی کی کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں ہے، اس لیے پرسنل لاء کے تحت اس پر غور نہ کیا جائے ، چنانچہ عدالت نے طے کیاتھا کہ اس شادی کے سلسلے میں بحث صرف اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ہو گی ۔ سبل نے کہا تھاکہ ایسی شادیوں کے برے اثرات مرتب ہوں گے، یہ مسئلہ دیگر عائلی قوانین مثلاً وراثت، جانشینی، گود لینے اور مختلف کمیونٹیز کی پرسنل لا زکو بھی متاثر کرے گا۔ اس مقدمے میں جمعیۃ کے وکیل کپل سبل کو ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد اور ایڈوکیٹ نیازاحمد فاروقی اسسٹ کررہے تھے۔آج فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنا عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور پارلیمنٹ کو شادی سے متعلق قوانین وضع کرنے چاہییں۔ سماعت کے دوران پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ نے تسلیم کیا کہ صرف ایک قانون میں تبدیلیاں لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ طلاق، گود لینے، وراثت جیسے تقریباً 35 دیگر قوانین موجود ہیں، جن میں سے اکثر مذہبی ذاتی قوانین کے دائرے میں آتے ہیں۔ چیف جسٹس چندر چوڑ کا کہنا تھا کہ اس بات پر ایک حد تک اتفاق اور عدم اتفاق ہے کہ ہم، ہم جنس شادیوں کے حوالے سے کہاں تک جاسکتے ہیں۔جسٹس چندر چوڑ کے ساتھ دو دیگر ججوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عدالت ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتی اور نہ عدالت اسپیشل میرج ایکٹ (SMA) کی دفعات میں رد و بدل نہیں کرسکتی ہے۔ یہ ایک سیکولر قانون ہے جو بین ذات اور بین المذاہب شادیوں کی سہولت کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ عدالت کا خیا ل ہے کہ مقننہ یا پارلیمنٹ کو ہم جنس شادی کی اجازت دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔تاہم جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ ریاست کو ہم جنس جوڑوں کو کچھ قانونی تحفظات فراہم کرنے چاہییں۔ اس کے لیے انھوں نے یہ دلیل دی کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو دیے گئے ’فوائد اور خدمات‘ سے انکار کرنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ ہم جنس پرستوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے دائر 18 سے زیادہ درخواستوں کے مشترکہ کیس کی سماعت کر رہی تھی جس میں درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ شادی نہ کرنے کی وجہ سے وہ ’دوسرے درجے کے شہری‘ بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اپریل اور مئی میں کیس کی تفصیل سے سماعت کی۔ عوامی مفاد میں اس عدالتی کارروائی کو لائیو سٹریم کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔پانچ ججوں میں چیف جسٹس کے علاوہ اس میں جسٹس سنجے کشن کول، رویندر بھٹ، ہیما کوہلی اور پی ایس نرسمہا شامل تھے۔
اس فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے اس معاملے کے ایک فریق اور جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ہندستان ایک قدیم تہذیب اور ثقافت کا ملک ہے ، جو مختلف مذاہب اور افکار کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے مغربی دنیا کے آزادل خیال اشرافیہ طبقے کی منمانی سے نہیں روندا جاسکتا۔عدالت نے اس فیصلے کے ذریعہ شادی کے مقدس اور پاکیزہ نظام کی حفاظت کی ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں صدیوں سے سمجھا اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ہم انفرادی حقوق کے تحفظ اور اپنی ثقافتی اقدار کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے میں عدالت کے بالغانہ فیصلے کی ستائش کرتے ہیں ۔