27.1 C
Delhi
September 12, 2024
Hamari Duniya
Breaking News قومی خبریں

چاولہ اجتماعی عصمت دری اور قتل معاملہ:پھانسی کی سزا پاچکے تینوں مجرمین سپریم کورٹ سے بری، فیصلے سے ہر کوئی حیران

Supreme court of India

نئی دہلی (ایچ ڈی نیوز)

میں ہار گئی ہوں… ایک ماں کے الفاظ جو سپریم کورٹ کے فیصلے پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ، جو اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کے لیے 10 سال تک کئی عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی۔ نچلی عدالت اور ہائی کورٹ نے اجتماعی عصمت دری اور قتل سے متعلق اس کیس کو ریئریسٹ آف ریئر سمجھتے ہوئے تینوں مجرموں کو موت کی سزا سنائی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس 10 سال پرانے کیس کے فیصلہ کوبدل دیا۔ پیر کو تینوں ملزمان کو بری کر دیا گیا۔
دہلی کا 10 سال پرانا چاو¿لہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے سرخیوںمیں ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اجتماعی عصمت دری اور قتلکے اس معاملے میں تینوں مجرموں کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ سن کر ہرکوئیحیران رہ گئے۔ متاثرہ کی والدہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی شکست قرار دیا۔ اس نے کہا کہ میں ہار گئی ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس فیصلے کے انتظار میں زندہ تھے۔ لیکن اب ہار گئےہیں۔ ہمیں امید تھی کہ ان کی بیٹی کو سپریم کورٹ سے انصاف ملے گا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد اب جینے کا کوئی مقصد نہیں رہا۔
سپریم کورٹ نے تینوں مجرموں کو بری کرنے میں پولس کی سنگین غفلت کو بنیادبنایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالتیں جذبات کی بنیاد پر نہیں شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کو اظہار خیال کا پورا موقع نہیں ملا۔ بتادیں کہ پولیس کی لاپرواہی کے باعث 19 سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں مجرموں کو بری کر دیا گیا۔
2012 کیس
یہ فروری 2012 کی بات ہے۔ چاولہ کی ایک 19 سالہ لڑکی گڑگاو¿ں سے کام ختم کرنے کے بعد بس سے گھر لوٹ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ بس سے اتری اور اپنے گھر کی طرف چلنے لگی۔ تبھی ایک سرخ رنگ کی کار پیچھے سے آتی ہے اور اس میں سوار تین نوجوان اسے زبردستی پکڑ کر گاڑی میں گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔
درندگی کی تمام حدیں پار کردیں
بدمعاشوں نے لڑکی کو ہریانہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اسے گاڑی میں گھنٹوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے تینوں نے شراب کے ٹھیکے سے شراب خریدی اور پھر کار کو ایک ویران جگہ پر لے گئے اور شراب پیتے ہوئے روشنی کے ساتھ درندگی کرنے لگے۔ تینوں درندوں نے اس لڑکی کے جسم کو نوچنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اس کے جسم کو کئی جگہوں سے دانتوں سے کاٹا گیا تھا۔ اس کے سر پر گھڑے سے حملہ کیا گیا۔ بدمعاش وہیں نہیں رکے ، انہوں نے کار سے لوہے کا پانا اور جیک نکال کر اس کے سر پر مارا۔ درندوں نے اسے جلا کربدشکل کرنے کے لئے گاڑی کے سائلنسر سے دوسرے اوزاروں کو گرم کرکے اس کے جسم کو جگہ جگہ داغ دیا۔ یہاں تک کہ اس کے پرائیویٹ پارٹ کو بھی جلایا گیا۔ اس کے بعد ملزموں نے بیئر کی بوتل پھوڑی اور اس سے لڑکی کے پورے جسم کو تب تک کاٹتے رہے۔ جب تک اس کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد اس کے پرائیویٹ پارٹ میں بھی ٹوٹی بوتل گھسادی تھی۔ ان درندوں نے لڑکی کی آنکھوں کو پھوڑ کر ان میں کار کی بیٹری کا تیزاب بھردیا تھا۔
لڑکی کے والد گارڈ کا کام کرتے تھے۔ کافی دیر تک لڑکی گھر نہ پہنچنے پر تلاش شروع کردی۔ اس کے بعد وہ پولیس سے مدد مانگنے بھی گئے۔ متاثرہ کے اہل خانہ نے پولیس کو پورے واقعہ کے بارے میں بتایا۔ لیکن وہ حیران رہ گئے جب دہلی پولیس نے اسے بتایا کہ اس کے پاس مشتبہ شرپسندوں کا سراغ لگانے کے لیے گاڑی نہیں ہے۔ اس کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کردی۔ معلوم ہوا کہ تینوں ملزمین ہریانہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی شناخت روی ، راہل اور ونود کے طور پر ہوئی ہے۔ تینوں کار ڈرائیور تھے۔ پولیس نے تینوں کو ان کے موبائل فون کی لوکیشن اور کار کی شناخت کے بعد گرفتار کر لیا۔
پولیس نے 16 فروری کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ملزمان کے نمونے لیے۔ لیکن پولیس کی کارروائی دیکھئے ، اگلے 11 دنوں تک نمونے تھانے کے گودام میں پڑے رہے۔ یعنی 27 فروری کو وہ نمونے سی ایف ایس ایل کو بھیجے گئے۔ پولیس کی اس غفلت کا فائدہ عدالت میں مجرموں کو ملا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کو اظہار خیال کا پورا موقع نہیں ملا۔دفاعکی طرف سے دلیل یہ تھی کہ گواہوں نے بھی ملزم کی شناخت نہیں کی۔ کل 49 گواہوں میں سے دس گواہوں پر جرح نہیں کی گئی۔ ملزمان کی شناخت کے لیے کوئی پریڈ نہیں کی گئی۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نچلی عدالت نے بھی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔ ٹرائل کورٹ نے اپنی صوابدید سے انڈین ایویڈینس ایکٹ کی دفعہ 165 کے تحت ضروری کارروائی کر سکتی تھی،ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟
سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ تفتیش کے دوران اے ایس آئی کے ذریعہ مہلوک کے جسم کے جو بال ملے تھے، وہ کافی مشتبہ ہیں۔ حکم کے دوران عدالت نے یہ بھی بتایا کہ کھیت سے ملنے والی لڑکی کی لاش بوسیدہ نہیں تھی۔ یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ لاش تین دن سے کھیت میں پڑی تھی لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
سپریم کورٹ نے اس کیس میں تینوں مجرموں کو بری کر دیا جسے ریئریسٹ آف ریئر کہا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سوالوں کے گھیرے میںہے۔ خواتین کے حقوق کے متعدد کارکنوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی اور کہا کہ اس سے ملزمان کے حوصلے بلند ہوں گے۔ فیصلے کے وقت کارکن یوگیتا بھیانا، جو متاثرہ کی والدہ اور والد کے ساتھ عدالت کے باہر موجود تھیں، نے کہا کہ صبح ہمیں پوری امید تھی کہ عدالت موت کی سزا کو برقرار رکھے گی۔ لیکن جب ہم نے سنا کہ مجرم بری ہو گئے۔ ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ دہلی خواتین کمیشن( ڈی سی ڈبلیو) کی سربراہ سواتی مالیوال نے متاثرہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس سے عصمت دری کرنے والوں کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے ؟

Related posts

جامعہ ملیہ اسلامیہ کومرکزی حکومت کا تحفہ، میڈیکل کالج کے قیام کوملی منظوری

Hamari Duniya

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دنیا بھر کے مسلمانوں کا دل جیت لیا

Hamari Duniya

برطانیہ پھر سیاسی بحران، وزیراعظم لزٹرس کی کرسی خطرے میں

Hamari Duniya