Sophist Academy:
اسکول اور مدرسہ بیک گراؤنڈ کے غریب بچوں کی زندگی سنوارنے کی کوشش کررہی ہے سوفسٹ اکیڈمی
نئی دہلی، 16 ستمبر: اس کو سچ کردکھایا ہے سوفسٹ اکیڈمی کے احباب بطور خاص صفدر امام، شاہنواز علی اور کامران اکمل اور ان کی ٹیم نے۔ انھوں نے اسکول اور مدرسہ بیک گراؤنڈ کے غریب بچوں کے لئے لاء، بی ایڈ، آرٹ، کامرس، فارن لینگویجز جیسے کورسز کے انٹرینس کی تیاری کا بہترین انتظام کیا ہے۔ آٹھ مہینوں پر مشتمل ان کا سیلیبس ہے جس میں طلباء مدارس کے معیار بہت خیال کیا گیا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال فارغین مدارس کی ایک بڑی تعداد یہاں سے تیاری کر ملک کی بڑی یونیورسٹیز کے مختلف کورسیز میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
Sophist Academy:
ان خیالات کا اظہار معروف نوجوان سوشل ورکر اور گریٹ انڈیا نیشل انٹر کالج کے ڈائریکٹر نوراللہ خان نے کیا۔
اجلاس میں تعلیم اور بروقت اکیڈمی کے اہم کاموں پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر اجلاس ڈاکٹر محمد قاسم نے کہاکہ وقت کی اہمیت کو سمجھ کر ملت کے تئیں حددرجہ اخلاص کے ساتھ اکیڈمی کام کررہی ہے اور یہ وہ عملی اقدامات ہئں جو عموما متروک نظر آتے ہیں اور یہ واقعی روایتی انداز سے ہٹ کر ایک منفرد نوعیت کا کام ہے۔ اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علی حیدر ( ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے کہاکہ بچوں کا جذبہ اور سوفسٹ اکیڈمی کی منفرد کوشش ملت کے دیگر اداروں کیلئے مشعل راہ ہے۔
اس سال بھی چالیس بچوں کا داخلہ ہوا ہے جو صرف آٹھ ہزار کی شان دار کوچنگ اور بہترین کاؤنسلنگ اور گائیڈنس سے ممکن ہواہے۔ جو کوچنگ فیس سالانہ چالیس ہزار کی ہے اسے ان لوگوں نے انہتائی کم قیمت میں دی ہے اور الحمدللہ دو ٹیچرس تو رضاکارانہ طورپر بھی کام کررہے ہیں۔ بی ایڈ ، ڈی ایل ایڈ اور ایل ایل بی میں سب سے زیادہ داخلے ہوئے ہیں۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ نسواں مدارس کی بچیوں کا بڑی تعداد میں بی ایڈ میں داخلہ ہوا ہے۔
Sophist Academy:
واضح رہے کہ اس ادارے کی اولین ترجیح لیگل ایجوکیشن ہے اور اس کے ذمہ داران کی کوشش ہیکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو ایل ایل بی میں داخل کرایا جائے اور جوڈیشیری تک پہنچایا جائے۔ واقعی کچھ کرنے کا جذبہ ہوتو حیلے بہانے ماند پڑجاتے ہیں اور کامیابی قدم چومتی ہے۔ اور اسے اکیڈمی کے شان دار نتائج سے دیکھا جاسکتا ہے۔ حبیب مسجد سے متصل ایک بڑے ہال میں میں انھوں نے ایک شان دار کوشش کی ہے جو بڑے بڑے احباب کیلئے مشعل راہ ہے۔ہر کام کیلئے نہ تو صدیوں کی طویل مدت درکار ہے اور نہ ہی دو چار کروڑ کی لاگت چاہئے بلکہ چند حوصلہ مند افراد کا اخلاص اور استقلال چاہئے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر کبھی ایسے احباب کے سر پر ہاتھ رکھئے۔ آپ کو زیادہ نہیں صرف سو دو سو ماہانہ تعاون، محبت اور دعاؤں بھرے جملے پیش کرکے انھیں مزید ہمت دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دھیرے دھیرے رواں دواں یہ قافلہ ایک روز دوڑتا ہوا نظر آئے گا۔
نئے وپرانے طلبہ وطالبات سمیت تعلیم دوست احباب نیز دیگر حاضرین کی شرکت سے اجلاس بہت کامیاب اور مفید رہا اور صفدر امام صاحب کے کلمات تشکر اور دعاؤں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔