17.1 C
Delhi
January 18, 2025
Hamari Duniya
مضامین

سیتامڑھی کے نان پورکی مختصر ڈھائی سو سالہ تاریخ

Nanpur Bihar
مفتی محمد سجاد حسین القاسمی نان پور
         مقیم حال بنگلور
     ایڈیٹر ماہنامہ ندائے طیب بنگلور
       و مہتمم جامعہ دارالثقلین بنگلور
    و چیئر مین ودوان مورچہ کمیٹی منجانب ویلفیرپارٹی کرناٹکا بنگلور

سیتامڑھی ہیڈ کوارٹر سے متعلق ’’نان پور‘‘ شہرراجہ انیا دیوا کر ناٹکی سے جڑا ہواہے۔راجہ نانیا دیوا کرناٹکی نہیں ،بلکہ ایودھیا باشی ہیں۔تاریخ راجگان کے بیان کے مطابق حضرت ہند (اکشواکو بن نوح ) کے پڑ نواسہ بانی ملک الہ آباد بقول تاریخ الہ آباد؍ص:۱۵؍قدیم نام’’ کوسم نگری‘‘)راجہ کے ۶؍ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے ’’ریہ‘‘ بن پرورا‘‘کی پندرہویں نسل کے بعد پیدا ہوئے لڑکے ؍یا یوں کہئے کہ اکشواکو(ہند بن نوح) بیٹے کی نسل سے لکڑ نواسے مذہبا برہمن عقیدے کا ایک راجہ ’’ ہریتی‘‘ تھا۔اسی ہریتی راجہ نے شمالی ہند میں چلوکیہ ؍سولنکی برہمن آرین خاندان جاری کیا تھا۔ایودھیا انتشار کے بعد یہی ’’ہریتی‘‘چلوکیہ خاندان کے لوگ جنوبی ہند کے شمال مغربی ساحلی کرناٹک مہاراشٹرا کے جنوب میں واقع کرناٹک سے ملحق علاقے کونکن کے اوٹی کے ڈیگور شہر میں جا کر پناہ لئے۔کچھ عرصے بعد ہریتی راجہ سے بنے خاندان بروایت مقدمہ دکن کتاب ؍ص:۳۰؍ ’’جیسمتھ چلوکیہ‘‘شخص اور تاریخ ہند ؍ص:۶۴؍ اسی طرح تاریخ ہند و پاک ؍ص:۱۷؍ کے بیان کے مطابق ’’پولکیسن ثانی چلوکیہ‘‘ نے مرہٹے لوگوں سے اتحاد کر کے ،اپنے خاندان کی سرداری کر تے ہوئے اس وقت کے جنوبی ہند کے نربدا اور کرشنا کے درمیانی علاقوں پرجاری ’’پلو‘‘ حکمرانی اور اس کے راجہ’’ کرشن راٹھور ‘‘اور اس حکومت کے راجدھانی شہر ’’ بادامی‘‘پر ۵۰۰؁ء یا۷۸۳ء؁ قبضہ کر کے اپنے خاندان’’ چلوکیہ‘‘ کے نام پر ’’چلوکیہ‘‘ حکومت قائم کر لی۔اس چلوکیہ حکمرانوں میں سے  ۵۵۰؁ء سے ۷۵۳؁ء تک کل چار سو تین ؍ ۴۰۳؍ سال تک اس خاندان سے ۹؍ حکمرانوں نے ساتویں اور آٹھویں صدی تک حکمرانی  کرتے رہے ۔
اس کے بعد مسلم سلاطین خصوصا محمود غزنوی کے پے در پے ہندوستان پر حملوں سے راجگان ہند کا جب ستارہ گردش میں آگیا تو جنوبی ہند کے راجگان ہنود کا ستارہ بھی گردش میں آیا۔بروایت تاریخ دکن ؍ص:۳۷؍۳۸؍مہادیو راجہ کے بعد راجہ رامچندر مشہور بہ راجہ رام دیو دیو گدھی اور بقول راما شنکر ترپاٹھی ۱۰۴۰ء تا ۱۰۶۰ ء میں اہل اسلام کے دکن میں مقرر کر دہ مسلم بادشاہ ’’ علاء الدین خلجی ‘‘نے رام دیو دکنی بادشاہ کی حکمرانی پر قبضہ کر کے اس کی حکومت کو ختم کر کے اسلامی حکومت قائم کی اور ۱۳۱۰ء ؁تک حکمرانی کر تے رہے۔اسی علاء الدین خلجی کے حملے سے پریشان ہو کر چلوکیہ خاندان کے ہنود راجگان راجہ رام دیو،راجہ لدر دیو،راجہ ولا مالوہ کے راجہ وکرما دیتیہ بن شومیشور راجہ مالوہ وغیرہ لوگ ایودھیا کی طرح پھر شمالی ہند کی طرف رخ کئے۔اس زمانے میں ہریتی چلوکیہ خاندان کے راجگان میں سے اخیرراجہ کا فوجی کمانڈر’’ راجہ نانیا دیوا‘‘ نسلا ایودھیا باشی اورمتولد کرناٹکی تھے۔ماں کی طرف سے رامائن وغیرہ کے مطابق ووٹریکا خاندان سے تھے۔راما کرشنا مؤرخ ہنود کے بقول ان کے ایک بھائی کا نام ’’کرتی ‘‘ بدھشٹ تھا۔دوسرے چھوٹے کا نام ’’مانئے دیوا‘‘ تھا۔جن کے نام پر گڑھا گاؤں میں ’’مانے چوک‘‘ اب بھی مو جود ہے۔شجرہ نسب ’’’’نانیا دیوا بن باہو بن ہریت شاہ متعلقہ ذات اچیاکو(سولر) پوتا ہریش چندر ‘‘؍یاخدا رام بن کوشاپوتاکوش بن حام بن نوحؑ نسل ‘‘ ہے۔خاندان ایک قول کے مطابق سوریہ ونشی یا رگھو ونشی راجپوت ‘‘ ہے۔
جس وقت کرناٹک سے شمالی ہند کی طرف سفر کئے اس وقت ان کی عمر اس وقت ۲۰؍ سال کی تھی۔یہ چلوکیہ راج میں یہ اس وقت فوجی کمانڈر تھے۔کرناٹک کے سرو کے درختوں سے ڈھکے نیل گیری پہاڑی علاقوں کے شہر ’’ڈیگور‘‘علاقہ کونکن میں رہ رہے تھے۔راجہ نانب دیو بھی اپنے کل فیملی اور خاندان کے ساتھ جنوبی ہند سے ہجرت کر کے پہلے دہلی ،پٹنہ،ہوتے بنگال صوبہ سے متعلق علاقہ دھارا کے تحت واقع قصبہ رسول گنج عرف کوئیلی میں ۱۰۶۵؁ء یا ۱۰۷۲؁ء میں،اورراما شنکر ترپاٹھی کے بقول ۱۰۴۰ تا ۱۰۶۰؁ ء میں،اسی طرح متھلا ہسٹوری کتاب کی روایت کے مطابق ۱۰۹۸؁ء میں،اسی طرح آئینۂ ۷ترہت کتاب ؍ص: ۱۰؍ کے مطابق بحساب ’’ساکھا‘‘ سن ۱۰۱۱؁ ؍مطابق سمت ۱۱۴۶؍مطابق سن فصلی ۴۹۶ اور بقول متھلا درپن کتاب؍۱۰۹۷؁ء میںآکر قدیم ہند کی تاریخ جلد دوم؍ص:۱۴۹؍ اور دیگر کتب تواریخ کے بیان کے مطابق یہاں کیپال خاندان کے چھٹویں یا نویں راجہ’’ مہی پال (۸۹۰ تا ۱۰۲۱)سے اجازت لے کر پناہ لئے۔صوبہ مالوہ کی راجدھانی شہر ’’پیرا مارس‘‘کی بھی مسلم فاتحین کے حملے سے تباہی کے بعد وہاں کے راجہ شومیشورا اول چالوکیہ کے بیٹے راجہ بکرما جیت عرف ’’ وکرمادیتیہ بن شومیشورا‘‘ نے بھی بنگال و آسام کے راجہ ’’وگرہ پال ‘‘ کی اطاعت کر کے پناہ لے چکے تھے۔
اس وقت کوئیلی سے مشرق رخ میں ایک موجودہ نان پور پڑتی اور بقول متھلا درپن سکھوؤں کا گھنا جنگلی علاقہ تھا۔رسول گنج عرف کوئیلی کے قیام کے دوران متھلا درپن ہی کے بقول راجہ نانب دیو ایک دن ان پور کے اس جنگلی علاقے میں مو جودہ محلہ اور اصل نان پور’’ڈیہہ‘‘راجا جی نگر میں بطور تفریح آرام کر رہے تھے کہ اچانک ایک سانپ کو پھن کاٹے بیٹھادیکھا۔ سانپ کے پھن پر راجہ’’ نانیا دیوا‘‘ کو کچھ سنسکرت زبان میں یہ اشلوک ’’رامو ویتی نل ویتی راجا پوروروا،الرک ،سے دھن راپت نانئے راجہ بھوشیتی ‘‘لکھا ہوا دیکھائی دیا ۔راجہ نے ایک سنسکرت عالم کو بلوا کراس اشلوک کو پڑھوایا تو اس نے اس کا ترجمہ کر کے بتایا کہ ’’رام جانتے ہیں۔نل جانتے ہیں ۔پور وروا جانتے ہیں۔ اس بات کو کہ’’ الرک مہا راج ‘‘کی دولت پا کر ’’نانب دیب ‘‘ راجہ ہوں گے‘‘۔اس کے بعد سانپ اچانک غائب ہو گیا۔اس عجوبہ واقعہ کی اسلامی اعتبار سے تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔البتہ ممکن ہے کہ شاعر لوگ انعام پانے کے لئے کچھ کا کچھ ایران توران بکتے اور بہکتے رہتے ہیں۔اسی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ سنسکرت شاعر سانپ کے سر پر پھن کے ریکھا اور قدرتی ڈیژائن کا من موجی مذکورہ مطلب بتا کر انعام حاصل کئے ہوں۔
بہر حال اس شاعر نے راجہ نانب دیو کو اس علاقے کے راجہ ہو نے کی پیشین گوئی اس اشلوک سے کی۔متھلا درپن کتاب میں ہے کہ راج محل تیار ہو جانے کے بعد۱۰۹۸ء؁ مطابق شاکھاتاریخ ۱۰۱۹؁سانون سوکل سیمتنی جوگ ،ہندی ماہ نچھتر’’سواتی‘‘ میںبتاریخ لگن سنہہ بروز سنیچر اس ر اج محل کے مین گیٹ پر ہندی کے یہ شعر سنسکرت زبان میںکتابت کروائی ۔
نند یو بند و وید ھو سمِّت شاک ورش
تچّْھ  ونِیشت دَلِے مونی سد ھی تتھیامو

شواتی شنیشچریوتے کری ویری لگنے
تننانئے د یو نو پتی وردھت واستُم
 راجہ نانیا دیوامحلہ راجا جی نگر کے راج محل قلعہ تعمیر مکمل ہو جانے کے بعدراج محل کے گیٹ پر مذکورہ شعر کتابت کروانے کے بعداسی میں مستقل باس( واستو) لے کر رہنے لگے اور اس جگہ کا نام ’’ نانئے دیواپور‘‘ رکھا۔یہی نام کثرت تلفظ سے بگڑ کر’’نان پور‘‘ مشہور ہو گیا ہے۔اس روایت سے ثابت ہو تا ہے کہ مو جودہ ڈیہہ؍راجا جی نگر مندر والے محلے کے نیچے راجہ نانیا دیوا کا ڈھائی سو سالہ قدیم راج محل موجود ہے۔راجہ نانیا دیوا اسی قلعہ کو فوجی چھاؤنی بنا کراس وقت مالوہ ریاست سے بھاگے راجہ بکرماجیت عرف وکرمادیتیہ سے ملاقات کر کے اپنی حکومت بنانے کے لئے اتحاد کر کے اسی ڈیہہ سابق نانپورکو فوجی چھاؤنی بنا کر اپنی راجگی حاصل کر نے کے لئے محنت کر نے لگے۔
 مؤرخ متھلا درپن لکھتے ہیں کہ راجہ نانیا دیوا نے اپنی حکومت بنانے کے لئے جنگی مہم ۳۳؍ سال کر نے کے بعد۱۱۳۰ء؁ میں فتحیابی حاصل کر نے کے بعداپنی جنگی چھاؤنی موجودہ نان پور کو اپنی متھلا حکومت کی راجدھانی مقرر کی۔جو کہ ترتیب وار کل متھلا کی میری تحقیق کے مطابق دسویں یا گیارہویں راجدھانی بنا کر ۱۸؍ سالوں تک۱۱۴۸ء؁ تک ؍اور بحساب ۱۰۹۸؁ء ۱۱۳۱ء؁ میں فتحیابی کے بعد۱۱۴۹ء؁ تک کل متھلا پوری پر حکمرانی کی۔صحیح اور اکثر روایت سینتالیس یا پچاس سالوں تک حکمرانی کی ہے۔ہسٹوری آف متھلا‘ ؍ص:۱۶۹ ؍ کے بیان کے مطابق راجہ نانیا دیوا’’ساکا‘‘تاریخ کے حساب سے بقول آنجہانی پنڈتا کنڈا جھا ۱۰۱۹تا ۱۰۹۷ ء میںبروز ہفتہ۷؍ تاریخ کومتھلا کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔دیگر مؤرخین متھلا کے بقول 1097 ؍ یا 1098 ء میں اس عظیم و قدیم متھلا پر نان پور قصبے کو چھاؤنی بنا با کر راجہ وکراما دیتیہ سے اتحاد کر کے شمالی بنگال میںجد و جہد کر کے فتح کر کے اپنی خود مختارحکمرانی قائم کر کے کل متھلا کو نان پور راج بھون کے تحت کر کے حکمرانی جاری کی تھی۔جس کی ان کے عہد میں چوحدی پورب میں:’’جھنجھار پور‘‘ شہر تھا۔ آئینۂ ترہت میں ’’جالہ ‘‘وغیرہ کو بھی نان پور شہر کے اندر ہی شمار کیا ہے۔پچھم اتر میں:باجپٹی تھا۔دکھن میں:بھروار ہ تھا۔اس درمیان کے تمامی علاقے جنگلات تھے۔
اس خاص نان پور کی چوحدی والے نان پور شہر کل متھلا کی راجدھانی بنی۔جس کے تحت ہندو پوتھیوں کی تحریر کے مطابق کوسی ندی‘‘ کے کنارے سے لے کر شالگرامی یعنی گنڈکی ندی کے کنارے تک،پورب پچھم بحساب سنسکرت ماپ کے چھپن جوجن،بحساب کوس،چھیانوے کوس اور دریائے گنگا کے کنارے یعنی حاجی پور سے لے کر دنیا کی سب سے بڑی اونچی چوٹی کوہ ہمالیہ نیپال تک دکھن اتر بحساب سنسکرت ماپ سولہ جوجن ، بحساب کوس،چونسٹھ کو س،کل اسکوائر میں چھ ہزار ایک سوچوالیس مربع کلو میٹر کے درمیان کے تمامی علاقے، شہریں اورتمام قریہ جات بلکہ میرے ’’نان پور‘‘ قصبہ کے مواد کے لئے ۲۸؍ سالہ کئی معتبر ترین کتابوں کی مطالعہ کی روشنی میںمیرا ماننا ہے کہ’’ راجہ نانیا دیوا‘‘ کے زمانۂ حکومت میں’’ نان پور‘‘گاؤںکے تحت پوری متھلا پوری’’ترہت یا ملالا حکومت ‘‘نام کی سلطنت تھی۔ ہسٹوری آف متھلا‘‘ انگریزی کتاب مؤلفہ ’’اوپندرا ٹھاکر ‘‘بدھشٹ اسٹڈیز ، مگدھ یونیور سیٹی بودھ گیا؍مطبوعہ سال 1988 ء؁ کے ؍ ص:۔ ۴؍ کی تحریر کی روشنی میں ہے کہ :’’ملک متھلا‘‘ شمال میں :ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں گنگا تک جوکہ100؍ میل چوڑا ہے اور مشرق میں مہانند ندی سے مغرب میں گنڈکی ندی تک 250؍ میل لمبا جس کا رقبہ25000-؍ مربع میل ہے ۔اس درمیان کے تمامی آبادیاں اور شہریں ’’نان پور راج محل‘‘ یا راجدھانی کے ماتحت تھے۔
ہندوؤں کے مقدس کتاب ’’پورانوں ‘‘ کے حوالے سے لکھی ہوئی حدیہ ہے کہ: ’’ میتھل یعنی ترہت‘‘ کے مشرق میں دریائے کوسکی ، مغرب میں دریائے گنڈکی اور جنوب میں گنگا سے شمال میں ہمالیہ کے جنگل تک پھیلے ہوئے وہ تمام علاقے جوقدیم زمانہ میں گنڈکی کے بینکوں پر واقع جنگل ’’کمپارانیا‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے’’نان پور ‘‘راج محل کے ماتحت تھے۔ اسی طرح ’’ساکیت سنگرنا منترا‘‘ کے بقول “گنڈاکی ‘‘(گنڈاکی تیرامیرابھیا) کے کنارے سے لے کر کیمپایعنی جدید چمپارن کے جنگل تک ، ملک کو’’ ویدھا ‘‘یا’’ تیرہ بھکٹی‘‘ نامی کہا جاتا تھا۔ یہ تمامی علاقے نان پور راج محل کے ماتحت تھے۔ جن لوگوں نے متھلا کی حد کی تحقیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میتھلا؍ویدھا ، ترابھوتی یا جدید ترہوت‘‘ اس خط کا نام ہے۔جس میں25 ° 28 ‘کے درمیان پھیلا ہوا راستہ ہے۔ 26 ° 52 ‘این لیٹ؍اور 84 ° 56 ‘اور 86 ° 46’ای کے درمیان ہے۔ شمال میں ہمالیہ اور مشرق وجنوب اور مغرب میں، بالترتیب کوگی ،گیٹیگڈ اور گانکلکی سے ملحق ہے۔ ہمالیہ کی نچلی حدود کے درمیان مشرقی اور مغربی رخ میںنیپال کے تحت واقع ’’چن پورن،مظفر پور ، دربھنگہ ، گنگا، سیتامڑھی ، سمستی پور ، مدھوبنی ، کٹیہار ، سہرسہ ، پورنیہ( مع موجودہ؍ ارریہ) اور بیگوسرائے، تیری کے موجودہ اضلاع مل کربنی’’ متھلا‘‘ حکومت کے تمامی علاقے اور شہریںمحترم جناب راجہ’’ نانیا دیو‘‘ اور ان کی ’’گنگا سنگھ دیوا ‘‘فرزندسے چلی حکومتوں کے دورانیہ حکومت میں ’’نان پور راج محل ‘‘کے ہی ماتحت تھے۔اسی طرح شہنشاہ اکبر کے ذریعہ دربھنگہ کے مہاراجہ کے ورثاء کے تعلق سے ایک معلوماتی کتاب’’ دی گرانٹ‘‘ کے اندر’’ متھلا‘‘ کے بارے میںلکھی حد کہ’’ کوسی سے گنگا کے شمالی اطراف کے تمام حصے ’’نان پور ‘‘راج محل کے ہی ماتحت تھے۔
 موجودہ چوحدی: مشرق میں : پوپری ( جنک پور روڈ) ہے۔یہ ہائی وے 114A ؍ہے۔نانپور سے 5.5 ؍کلومیٹر کی دوری پر ہے۔12-13 ؍منٹ وقت سفر ہے۔دکھن میں :  بوکھرا بلاک ہے۔نانپور سے 1,901.9 ؍کلو میٹر پہ واقع ہے۔تقریبا 12.6 ؍کلو میٹر ہے۔پورب میں : جالہ بلاک ہے۔نانپور سے 10.6کلومیٹر ہے۔ سفر وقت 28 ؍منٹ کا ہے۔اتر میں :باجپٹی بلاک ہے۔نانپور سے 18.2 کلو میٹر ہے۔سفر وقت 39 ؍منٹ ہے۔
 نانپور کی آراضی :نان پوراتری اور دکھنی دونوں پنچایتوں کی من جملہ کل مو جودہ آراضی بمطابق رجسٹرار آفس 581.6 ؍ ایکڑ زمین پر مشتمل ہے۔ان میں سے اتری پنچایت کی کل آراضی کا رقبہ 572 ؍ اور دکھنی کل آراضی کا رقبہ 9.6 ؍ مربع کلو میٹر ہے۔دونوں پنچایتوں کی زمین ملا کر کل نان پور 581.6 ؍ ایکڑ زمین پر مشتمل ہے۔اتنے بڑے علاقے پر مشتمل مرکزی شہر نان پور کو جس وقت نانیا دیوا راجدھانی  بناکر متھلا پر قبضہ کئے تھے ۔اس نان پور گاؤں کی آباد کاری اکثر کتب تاریخ میں نان پور قصبے کی آباد کاری کا سن ۱۰۹۸؍ درج ہے۔ایک کتاب میں ۱۰۹۷؍ درج ہے۔۱۰۹۸؍ کی روایت کی تائید کی روایات زیادہ ہیں۔ اس لئے ۱۰۹۸؁ء ہی معتبر سن آبادکاری ہے۔جبکہ سلطان محمود غزنوی کے پڑپوتے سلطان مسعود ابراہیم بن سلطان ا براہیم کی حکومت کا آغاز ہواتھا۔یعنی سلطان مسعودبن ابراہیم راجہ نانیہ دیوا کا ہم عصر بادشاہ تھے۔ جس سال یعنی ۱۰۹۸ء؁ مطابق ۴۹۲ھ؁سن ہجری میں راجہ نانیہ دیوا نے چلوکیہ نظام حکمرانی کرناٹکی کے تحت نان پور شہر بسایا تھا ۔اسی سال ہندوستان میںسلطان محمود غزنوی کے پڑ پوتے’’سلطان ابراہیم ‘‘کی مملکت اسلامیہ کی نئی حکومت کا بھی آغاز ہواتھا۔ اسی طرح عین اسی وقت ،نیپال میں ’’اکشواکو ؍ہند بن حام؍نیمی بن نوح ؑ ‘‘کی ویشالی کی لچھوی خاندان سے راجہ ’’گنا کام دیو‘‘کی نسل ’’نیوار‘‘ یا ’’ اواینوار‘‘ نامی خاندان کی حکمرانی جاری تھی۔راجہ نانیا دیوا نے ان پر مسلط ہو کر انہیں مغلوب کیاتھا۔
سٹوری آف متھلا کے بقول نانیا دیوا نیپچاس سالوں کی حکمرانی کی۔۱۰۹۸ء سے ۱۱۱۴ء؁ تک مطابق ۴۹۲۔۵۰۸ھ تک کل ۵۷برس اور بقول بعض ۴۷؍ برس تک حکمرانی رہی۔ بقول پولیٹکل تھینکرس ؍ص:۳۹؍گنگا دیوا(جو کہ پانچواں بیٹا تھا)بیٹے کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔ہسٹوری آف متھلا کے بقول یہ سن وفات ۱۱۴۷ء؁ ہے۔ راجہ نانب دیو کے پانچ بیٹے تھے۔بڑے بیٹے کا نام رام سنگھ دیو تھا۔دوسرے بیٹے کا نام ہری سنگھ دیو یا دیب تھا۔تیسرے بیٹے کا نام ’نرسنگھ دیب‘‘یا دیو‘‘ تھا۔چوتھے یا پانچویںبیٹے کا نام ’’گنگا دیو؍یا گنگا دیوا؍یا گنگا سنگھ دیب‘‘تھا۔پانچویں بیٹے کا نام’’ملا دیوا‘‘ تھا۔ان بیٹوں میں سے راجہ نانب دیو کو ان کے بیٹے گنگا دیب نے قتل کر کے  نانیا دیوا کے بعد ۱۱۳۶ء سے یا ۱۱۴۷ء سے ۱۱۴۸ء تک کل ۱۲؍ برس حکومت کی۔بقول آئینۂ ترہت ؍ص: ۱۲؍کل حکمرانی ۱۱۹۶ سمت موافق سن فصلی ۵۴۶ تک کل ۱۴؍برس رہی ہے۔اسی کا دورا نام گنگا سنگھ دیو،گانگ دیو،عرف گنگا دیب بھی ہے۔گنگا سنگھ کے بعد متھلا کا تیسرے راجہ ان کے بیٹے نرسنگھ دیب نے باپ کو ۱۱۸۷ء؍یا۱۱۴۹ء میںقتل کر کے حکمرانی شروع  کردی۔آئینہ ترہت کے بقول راجہ سیوے سنگھ نام دیگر ’’ شیو سنگھ‘‘ تیسرے راجہ ہیں۔جبکہ قطب الدین ایبک کو شہاب الدین غوری دلی کا بادشاہ منتخب کر کے چلا گیا تھا۔اسی کے عہد میں بروایت تاریخ بہار و اڑیسہ ؍ص:۳۳؍۱۲۳۰ء؁ میں مسلمان اور اسلام بختیار خلجی کے ذریعے بہار بشمول ترہت مع نان پور میں داخل ہوا ہے۔یعنی نرسنگھ دیو کے عہد میں یہاں کا پہلا مسلم حکمراں بختیار بنا ہے۔جبکہ دلی تخت پر شہاب الدین غوری کی حکمرانی جاری تھی۔مسلم باجگذاری میں نرسنگھ دیو نے ۱۲۰۲ سے ۱۲۸۸ء تک کل ۸۶؍ برس تک حکمرانی کی ہیں۔طلسم ہند میں ؍ص: ۴۳؍پر اس راجہ کا نام دیپ سنگھ لکھا ہے۔اس راجہ کی حکمرانی بہار کے متھلا کے دوسرے ،اور بقول تاریخ صوبہ بہار چوتھے مسلم حکمراںعز الدین محمد شیرانی‘‘ کے عہد تک رہی ہے۔نرسنگھ دیب کے بعد ان کے بیٹے رام سنگھ دیو بن گنگا دیب بن نانیا دیوا‘‘ چوتھے حاکم بن کر۱۲۰۲ سے ۱۲۸۸ ء تک حکمرانی کی ہیں۔ آئینہ ترہت کے بقول اسی راجہ کے دور میں تیمور لنگ نے سن ۱ھ میں ہندوستان پر قبضہ کر کے تیموری سلطنت کی بنیاد ڈالی ہیں۔اس وقت متھلا کا باجگذار راجہ یہی شیو سنگھ یا شیو پرشاد تھا۔ نان پور بشمول کل متھلا کا پانچواں راجہ مان سنگھ یا شنکر سنگھ دیب راجہ ناب دیو پڑپوتے ہیں۔یہ علی مردان مسلم حکمراں کے عہد میں رہے ہیں۔کل حکمرانی ۱۲۰۱ ء سے ۱۲۸۸ء تک رہی۔جبکہ دلی پر قطب الدین ایبک حاکم تھا۔اس کی کل ۸۶؍برس حکمرانی رہی۔نان پور بشمول متھلا کے چھٹویں راجہ ہری سنگھ دیو اور بقول آئینہ ترہت ؍ص:۱۲؍نام دیگر ’’ہر سنگھ دیب‘‘ ۱۳۰۴ء سے ۱۳۲۴ء تک کل ۲۰؍برس’’ پریہار پور راگھو‘‘کو راج بھون بنا کرراجہ بن کر حکمرانی کئے ہیں۔لیکن یہ راج پاٹ چھوڑ کراترا کھنڈ کے آشرم میں جا بیٹھے۔جبکہ دلی تخت پر اسلامی حکومت کتاب ؍ص: ۲۲۳؍ کے مطابق ناصر الدین محمود شاہ بن شمس الدین ا لتمش حاکم تھے۔ اسی ططرح فیروز شاہ بھی ان کے عہد میں سلطان رہے ۔
واضح رہے کہ نانب دیوکے قتل کے بعد حکومت کے لئے بیٹوں میں زبردست اختلاف ہوکر جنگ ہوئی۔حکومت ملا سلطنت اور متھا سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔راجہ نانب سمیت ان پانچوں کو ملا کر متھلا کے نانب دیو خاندان کے کل چھ حکمراں ہوئے ہیں۔ملا سلطنت نیپال کی حکومت بنی اور متھلا سلطنت ترہت کی حکومت رہی۔ مگر ان راجگان کی حکمرانی کے عہد میں’’ سمرون گڑھ‘‘اور’ سورسنڈ‘ وغیرہ شہریں راجدھانی رہیں۔کیوں کہ نانیا دیوا نے اپنے اخیر زمانے میں نان پور سے راجدھانی سمرون گڑھ نیپال علاقے میں منتقل کر کے اپنی حکومت کے وزیر ’’ ’’ دھودھی راؤ عرف بودھی داس بن دیو دھر بن سرو ٹھا کر بن ونش دھر ٹھا کر بن لچھمی ٹھا کر‘‘کرناٹکی کائستھ‘ کو جاگیر دار بنا دیا تھا۔جنہوں نے اپنی رہائش پورنیہ ضلع کے بھوانی پور گاؤں میں اپنی رہائش اختیار کر لی تھی۔اس وقت نان پور کے تحت ۲۲؍گاؤں مخصوں متعلق تھے۔
  کتاب متھلا درپن کے ص: ۵۵؍ اور ؍ص: ۶۵؍ پر تحریر کردہ نانیا دیوا خاندان کی اس متھلا دیش میں منصب راجگی و ریاست ساکھ ۱۰۱۱؁ اور سمت ۱۱۴۶؁ مطابق ۴۹۶ ؁ فصلی سے ساکھ ۱۲۴۵،؁ اور سمت ۱۳۸۱ مطابق ۷۳۱ ؁ فصلی تک کل چھ؍۶ حکمرانوں نے بہ سمیت راجہ نانیا دیوا ؍۲۵۶؍دو سو چھپن برس حکومت کیں۔ایک دوسری روایت یوں بھی آئی ہے کہ نانب دیو خاندان کی کل مدت حکم ۷۲۲ ؁ فصلی تک رہا۔آئینۂ ترہت کے مؤلف ص: ۱۹؍ پر لکھتے ہیں کہ ۱۲۳؁ سے ۷۵۴ء؁ تک کل اکتیس برس تک اور بقول بعض ۷۲۳ء؁ سے ۷۵۶ء؁ تک کل ۲۴؍ برس تک یہاں ترہت میں کوئی راجہ نہیں تھا۔
نرسنگھ دیب کے عہد میں مسلم فاتح شہاب الدین غوری الملقب بہ غیاث الدین بن بہاء الدین بن سام مشہور بہ معز الدین محمد بن سام برادر حاکم غور علاء الدین کا دور دورہ تھا۔ قطب الدین ایبک کے عہد میں جب ہندوستان میں خود مختار اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو متھلا کے راجہ گنگا دیو بن راجہ نانب دیو ہی حاکم تھے۔متھلا درپن کتاب کے مطابق چنگیز خان کے حملے کے دور میں متھلانچل میں نرسنگھ دیو ؍یا نرسمہا دیوا یا دیب کی حکمرانی سمرون گڑھ راجدھانی کے تحت جاری تھی۔ جنہوں نے ۵۲؍برس حکمرانی کی ہیں۔روایات تواریخ نرسنگھ دیو کو ظالم ثابت کرتی ہیں۔ان کے زمانے ہی میں ہندوستان پر غیاث الدین تغلق نے بھی حکمرانی شروع کر دی تھی۔راجہ نرسنگھ دیب کے ظلم کی شکایت جب مدھوبنی ضلع کے ’’سوگنا ؍یا اواینوار ؍یا اوینواس ‘‘خاندان والوںنے کر کے مدد طلب کی تو غیاث الدین تغلق نے متھلا پر چڑھائی کر کے اس کو مغلوب کر کے دربھنگہ کے جنگل کو آباد کر کے ’’دربنگال‘‘ نام رکھا جو کثرت تلفظ سے دربھنگہ مشہور ہو گیا ہے۔ویسے بہار اور متھلانچل کے مسلم فاتح شہاب الدین غوری کے فوجی کمانڈر اختیار الدین محمد بختیار خلجی ہیں۔جنہوں نے ۱۲۰۲ء؁ میں حملہ کر کے لکھنوتی یعنی ڈھاکہ( سنار گاؤں) کو راجدھانی بنا کر یہاں اسلامی حکمرانی قائم کی۔نرسنگھ دیب اور ان کے بعد جتنے ہنود راجگان متھلا کے ہوئے ہیں سب کے سب مسلم فاتحین علی مردان خان،وغیرہ کے باجگذار اور ماتحتی میں حکمرانی کئے ہیں۔مؤلف کتاب متھلا درپن کے ص: ۵۵؍ اور ؍ص: ۶۵؍ پر تحریر کردہ نانیا دیوا خاندان کی اس متھلا دیش میں منصب راجگی و ریاست ساکھ ۱۰۱۱؁ اور سمت ۱۱۴۶؁ مطابق ۴۹۶ ؁ فصلی سے ساکھ ۱۲۴۵؁ اور سمت ۱۳۸۱ مطابق ۷۳۱ ؁ فصلی تک کل چھ؍۶ حکمرانوں نے بہ سمیت راجہ نانیا دیوا ؍۲۵۶؍دو سو چھپن برس حکومت کیں۔ایک دوسری روایت یوں بھی آئی ہے کہ نانب دیو خاندان کی کل مدت حکم ۷۲۲ ؁ فصلی تک رہا۔آئینۂ ترہت کے مؤلف ص: ۱۹؍ پر لکھتے ہیں کہ ۱۲۳؁ سے ۷۵۴ء؁ تک کل اکتیس برس تک اور بقول بعض ۷۲۳ء؁ سے ۷۵۶ء؁ تک کل ۲۴؍ برس تک یہاں ترہت میں کوئی راجہ نہیں تھا۔
میرے مطالعے سے۱۱۳۶ء؁؍یا ۱۱۴۷ء؁ تا ۱۳۰۴ء؁ ؍تک کل۲۱۶؍ برس اور بعض قول کے موافق ۲۲۶؍ برس تک رہی ہے۔جن میں سے’’راجہ نرسنگھ دیب؍یا شنکر سنگھ دیب؍یا شیو‘‘ کے بیٹے یعنی نانیا دیوا کے پڑ پوتے متھلا کے چوتھے راجہ راجہ’’ رام سنگھ دیب بن نرسنگھ دیب بن نانیا دیوا‘‘ کے بعد نانیا دیوا کے نسل کا آخری اور پانچواں راجہ ’’ہری سنگھ دیب‘‘  کی’’پریہار پور راگھو‘‘ راجدھانی کے تحت دلی کے مسلم بادشاہان’’علاء الدین فیروز شاہ،فیروز شاہ، ناصر الدین محمود شاہ تغلق وغیرہ راجگان کی بادشاہت میں اور بنگال کے بھی چوتھے مسلم بادشاہ ’’ناصر الدین قباچہ ’’ شمس الدین التمش‘‘ کے دوسرے دامادکی باجگذاری میں راج پاٹ چلاکر بروایت آئینۂ ترہت ؍ص: ۱۲؍ ساکھ ۱۲۴۵؁ مطابق سمت سن ۱۳۸۱؁ و سن فصلی ۷۳۱ ؁ کے ’’ہرسنگھ دیب ‘‘ترہت کے راجہ ساکھ۱۲۴۶ ؁ پوس سدی نومی روز سنیچر میں پٹن پورے سے کو ہستان کی طرف چلے گئے۔لیکن مسلم مؤرخ کے بقول دربھنگہ کے جنگل میں غیاث الدین تغلق کے ہاتھوں پکڑے گئے اور قتل ہوئے۔اسی جگہ آج دربھنگہ شہر اسی غیاث الدین تغلق کا بسایا ہوا شہر ہے۔اس طرح راجہ نانیا دیو کے خاندان کے چھ پشتوں بعد راجگی ’’بھب سنگھ دیب برہمن متھل اوئینوار ‘‘ خاندان کے ہاتھوں رکن الدین بن شمس الدین کی سلطانی کے عہد میں چلا گیا۔جس کے پہلے راجہ بقول متھلا درپن راجہ سکیتو ہیں۔پھر راجہ دیودت ہیں۔
تاریخ الخلفاء کے بیان کے مطابق ۱۲۴۳ء؁ میںممالک مغربی و شمالی کا مستقر و مرکز حضرت عیسی ؑ سے چودہ سو سال پیشتر ہندوستان کی اجودھیا کے بعد بنی دوسری جمہوری حکومتی ریاست ’’ الہ آباد‘‘ کا نام’’ بندیل کھنڈ‘’ تھا،جو ابراہیم شاہ شرقی کے عہد حکمرانی میں جون پورریاست کے تحت تھا۔سلطنت شرقیہ کے تحت اس روہیلکھنڈ ؍یا الہ آبادکا دفتری مرکز ’’ الہ آباد‘‘ ہی تھا۔ جس کے تحت نان پور گاؤں تھا۔انگریزوں نے دفتری مرکز ’’آگرہ‘‘ کو ۱۸۳۷ء؁ میں کلکتہ کے تحت منتقل کرپھر دوسرے انگریز جنرل دی۔پھر جب کے جنرل ’’لارڈ کلایو‘‘ جب یہاں آیا تو اس نے دفتر ’’شملہ‘‘ کو منتقل کر دی۔اسی دور میں تیموری حکمرانوں میں سے جب ابراہیم شاہ شرقی حاکم جون پور ریاست ہوئے ہیں تو متھلانچل کے نان پور میں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے یہاں باجگذار راجہ ’’کام دیو‘‘ کی نظامت راجگی میںسن ۸۰۴ھ سے ۸۴۲ھ کے درمیان غالبا ۱۴۰۴ء؁ کے درمیان ایک قلعہ محمد علی گامدی بلڈر و معمار کے زیر نگرانی بنوایا۔جسے انگریزی دور میں’’اسٹیٹ‘‘ کے نام سے جانا گیا۔اس قلعے کو بنوا کر ابراہیم شاہ شرقی نے یہاں مخدوم شاہ سلطان حسین خلیفہ محدوم علاء الحق کے لئے رہائش گاہ تھی۔جنہیں اس قلعہ میں رہائش دے کر مسلمانوں کی حفاظت اور اشاعت اسلام کے لئے اسے مرکزی جگہ بنایا تھا۔اس وقت بروایت مشائخ شیراز ہند ترہت کی راجدھانی ’’لاہرہ‘‘ شہر تھی ۔جن لوگوں نے اسٹیٹ قلعہ کے بانی راجہ نانیا دیوا کو لکھا ہے ۔غلط ہے۔ اس کے اصل بانی ابراہیم شاہ شرقی ہیں اور معمار و نگراں اور محافظ محمد علی گامدی ہیں۔اس قلعے میں ایک مسجد بھی تھی۔یہاں ابراہیم شاہ شرقی نے بروایت تاریخ شیرازہند و مشائخ شیراز ہند اپنے فوجی بنام ’’ عراقی دستہ‘‘ مقرر کیا تھا۔یہی فوج نان پور رن کے گھملہ علاقے میں رہتی تھی اور یہی فوجی کے گھوڑے گھوڑ باڑہ پر جو تالاب ہے ۔ اس میں پانی پیتے تھے۔اسی لئے اس کا نام گھوڑ باڑہ ہے۔اسی فوجی دستہ کے کمانڈر محمد علی گامدی تھے۔علاقائی روایت کی روشنی میں ان کے ایک بھائی شوکت علی بھی تھے۔ جو آوا پور کے میدان میںبنگال کے راجہ کنس ؍یا گنیش کے ٹیکس نہ دینے کے سبب ابراہیم شاہ شرقی سے مشورہ لئے بغیر محمد علی نے قتل کر دیا تھا۔جس پر راجہ کے بیٹے کیرتی سنگھ مع اپنے احباب کے جون جا کر شکایت کی تو ابراہیم شاہ شرقی نے عدل کا فیصلہ کر تے ہوے نان پور اسٹیٹ کو کیرتی سنگھ کے حوالے بطور قصاص و عوض میں دے دیا تھا۔آج جو آوا پور بچھار پور جانے کے راستے میں بیچ میں قبرستان اور دونوں طرف راستے ہیں۔ یہی میدان جنگ تھا۔ یہاں پر قبرستان کا ہونا اور دونوں طرف راستے کا ہونا پروف ہے کہ اس میدان میں کبھی جنگ ہوئی تھی۔ جس کے شہیدان یہاں مدفون ہیں۔ اسی جنگ کے موقع سے شوکت علی شہید ہو کر کوئیلی کے قبرستان میں مدفون ہیں اور محمد علی خیروا نیپال چلے گئے۔ جہاں ان کی قبر بنی۔
 شہنشاہ اکبر اعظم کے دور حکمرانی۱۴۵۷ء میںبنگال صوبہ کے مسلم جاگیر دارحکمراں ’’ملک سرور خواجہ سرور ،الملقب بہ خواجہ خیالی و سلطان الرق ‘‘کے زمانۂ حکمرانی’’ ۱۴۵۷ء؁ تا ۱۴۷۵ء؁‘‘ کے ماتحت تک اور انگریزی دخل اندازی ۱۶۰۰ء ؁کے بعد سے بہار و بنگال کے علیحدہ ہو نے کے سن۱۹۱۲ء؁ سے پہلے پہلے تک کے درمیانی ایام میںاوربقول’’بنگال و غیر منقسم ہندوستان‘‘کتاب؍ص:۸؍ ۱۸۳۱ء سے ۱۸۶۸ء؁ تک مسلم حکمراں محمد علی اور شوکت علی کے قبضے میں خود محتارانہ جاگیرداری کی حیثیت سے رہی ہے۔انگریزوںکی ہندوستان میں ۱۶۰۰ء ؁ سے دخل اندازی ہو کر ۱۸۵۸ء کے غدر کے بعد کلی طور پر حکمرانی قائم ہو گئی جس کے سبب ہندوستان چار ٹکڑوں میں منقسم ہو گیا ۔دور اکبری میں ہی انگریزوں نے مہی تھلانچل یعنی۱۸؍ویں صدی میں افغانوں نے جس علاقے کانام ’’ ترہت ‘‘ پکارا تھا، اس کو ’’ترہت‘‘ اور’’ چمپارن‘‘ دو حصوں میں تقسیم کرکے چمپارن کی راجدھانی ’’نانب دیو کے پڑ پوتے موتی دیو کے بسائے ہوئے شہر موتیہاری کو بنائی اورترہت کی راجدھانی غیاث الدین تغلق کے بسائے ہوئے شہر در بھنگہ کو بناکر مہیش ٹھاکر جی کو ترہت گرانٹ دے کرزمینداربنا دیا گیا۔پھر ترہت بھی نیپال منڈالہ اور ترہت دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ترہت میں انگریزی اثر زیادہ تھا۔جہاں ۱۷۶۰ ء میں پہلا انگریز ’’کلایو‘‘ نے کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ماتحت میں نگراں تھا۔اس کے بعد ۱۷۹۰ء؁ میں متھلا کے ویشالی حصے کا نام ’’مظفر پور‘‘ رکھ کر ویشالی کو مظفر پور کے ماتحت کر دیا گیا۔ویشالی ۱۹۷۲ سے ۱۸۷۷۵ء تک مظفر پور ہی کے تحت رہا ہے۔ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۷۲ء میں ویشالی کوبہار کے ایک ضلع کی شکل دے دی گئی۔جس کا حالیہ صدر مقام حاجی الیاس بنگالی کاگنگا کے اتری کنارے پربسایا ہوا شہر’’ حاجی پور‘‘ ہے۔ در بھنگہ راجدھانی کے تحت جو ترہت علاقہ تھا ۔وہ بھی نیپالی حکمرانی ’’اوئینوار‘‘ واقع نیپال اور دربھنگہ بنام ’’راج کھنڈ والاونش‘‘دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔تاریخ بہار و اڑیسہ؍ص:۹۵؍پرہے کہ مسلم عہد حکمرانی میں مگدھ کو ’بہار ‘‘کہا جانے لگا اور بہار کی اس وقت ’’رہتاس،شاہ آباد،بہار،مونگیر،حاجی پور،سارن اور چمپارن،اور ترہت‘‘ کل آٹھ حصے تھے ۔ہر ایک حصے سرکار سے جانے جاتے تھے۔ان میں سے بہار سرکار کے ترہت سرکار کے تحت واقع مظفر پور کے اندر نان پور واقع تھا۔جس کا قدیم نام حضرت حام بن نوح نسل سے دوسرے پوتے ’’وشال دیو‘‘ کے نام پر آباد کیا گیا تھا۔جس کے اندر سے لچوی نامی شخص کی شہرت کی وجہ سے ایک  الگ خاندان ’’ لچوی‘‘ بنا اور اس خاندان سے ہوئے مشہور راجہ’’ کام دیو‘‘ نے ویشالی سے کاٹھمنڈو جا کر ایک تالاب کو پاٹ کر کاٹھمنڈو شہر ملک نیپال کو بسایا تھا۔
بقول آئینہ ترہت کتاب؍ ۱۸۷۸ء میںغیاث الدین تغلق کے بعد انگریزی دور میں ترہت کے ضلع در بھنگہ ’’ مدھوبنی، مظفر پور اور در بھنگہ کل تین اضلاع مشتمل تینوں کا ہیڈ کوارٹر تھا۔مگر دربھنگہ سے مدہوبنی بہت قدیم ضلع ہے۔جہاں راجہ جنک کی حکمرانی کی راجدھانی تھی۔آئینۂ ترہت کتاب ؍ص: ۱۶۷؍کے بیان کے مطابق۱۸۷۷ء؁ میں انگریزوں نے ترہت کے مدھوبنی،دربھنگہ اور مظفر پور تینوں اضلاع کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر کے مدھوبنی کو دربھنگہ کے ماتحت کر دی۔یعنی۱۸۷۷؁ء میں اس کی مرکزیت ختم کر کے ۱۱؍ پولیس تھانوں میں تقسیم کر کے ان کا سب ڈویژن بنا دیاگیا۔اسی حال میں اب بھی مو جود ہے۔
بہر حال!متھلادیش کے پہلے حاکم اس دیش کے بانی ’’ راجہ نیمی‘‘ ہیں۔ان کی پانچویںراجدھانی مو جودہ دربھنگہ کے پرگنہ ’’ ویراٹ پور‘‘ تھی۔جس کے ماتحت مو جودہ ضلع’’مدھوبنی‘‘ سابق نیپالی متھلا کاحصہ تھا۔بعد میںیہ قدیم ضلع مدھوبنی کو دربھنگہ میں شامل کر دیا گیا۔پھر تنظیم نو بزمانہ انگریز ۹۷۲ء میں جدید در بھنگہ سے مدھوبنی کو الگ ضلع کاٹ کر بنا دیا گیا ہے۔ ترہت حصے مظفر پور کے اندر’’نان پور ‘‘شامل تھا۔اب مظفر پور سے بھی کاٹ کر اسے ضلع سیتا مڑھی کے تحت کر کے نان پور اتری اور دکھنی دو پنچایتوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔۱۹۲ء میں انگریزوں نے اپنی قوت سے تمام دستاویزات خو مختار بن کر ضبط کرکے ماہانہ ایک ہزار روپئے ٹیکس مقرر کر کے ترہت متھلا کی دستور زمینداری از سر نو جاری کی اوراپنا حکم چلانا شروع کردیا اور اپنی ماتحتی میں نریندر سنگھ و راجہ مادھو سنگھ و راجہ پڑتاپ سنگھ کے واسطے صرف رہائشی اختیارات چھوڑے۔اس وقت نان پور بھی انگریزی ماتحتی میں چلا گیا۔ انگریزی تسلط مضبوط ہو جانے کے بعد انگریزوں نے اپنے ہم خیال باجگذار نگراں راجہ ’’ رودر پرشاد الملقب بہ’’ رائے بہادر‘‘کائستھ ذات کو اپنا باجگذار بنادیا۔ آئینہ ترہت ہی کے بیان کے مطابق نان پور کی سرزمین کائستھ پاٹھ شالہ کے تحت ۱۸۷۲ء؁ میں رجسٹرڈ ہوا ہے۔یعنی یہ شہر اور اسٹیٹ’’رودَر پرشاد‘‘ہی کے خاندان ’’شیو سنگھ یا شیو پرشاد‘‘ صاحب کے قبضے میں آچکا تھا۔ کائستھوں کا جب الہ آباد میں ۱۸۱۴ء ؁میں ٹرسٹ قائم ہوا تو اسے اس ٹرسٹ کے تحت کر دیا گیا۔’’ شیو پرشاد جی ‘‘کی حکمرانی مع باجگذاری انگریزی۱۴۵۷ء؁ سے ۱۴۷۵ء؁کے درمیان رہی ہے۔اس تفصیل سے یہ جوڑ مل گیا ہے کہ ۱۸۷۲ء ؁میں جو نان پور انگریزوں کی شہنشاہی دربار سے رودر پرشاد جی کو’’ شیو پرشاد‘‘کائست محصل کے خون بہا کے عوض میں جو رودر پرشاد عرف رائے بہادرجی کو ملی تھی ۔اس کے بعد نان پور’’روہیل کھنڈ؍یعنی ’’الہ آبا‘‘د ٹرسٹ کے تحت ’’چودھری مہا دیو پرشاد ‘‘ کے قبضے میں دے دی گئی۔پھر انہوں نے بوجہ لا ولدی کے ۱۸۷۲ء میں یہ شہر اپنے داماد’’امر ناتھ جی‘‘ کو متولی و جاگیر دارانہ مالک بنا کر الہ آباد ٹرسٹ کے تحت برائے حفاظت رجسٹرڈ کردی۔اس کے بعد سے ا کی بیٹی یعنی امر ناتھ جی کی بیوی مہا دیو پرساد مع اپنے شوہر امر ناتھ جی کے ۱۸۷۲ء سے تا حیات نان پور کا مالک رہے۔ان کے بعد ہندوستان کے سابق منتری امر ناتھ جی کے فرزند ودھری نہال سنگھ یعنی نان پور کے سابق و اولیں زمیندار مہا دیو پرشاد جی کے نواسے مالک بنے۔اس کے بعد ریاست ’’ الہ آباد‘‘ عرف روہیل کھنڈ ‘‘ کے کائست پاٹ شالہ‘‘ٹرسٹ کی ماتحتی میں کائست خاندان و نسل سے مو جودہ سرکاری جاگیر دار اوم پرکاش نان پور جی ہیں۔
مسلم عہد حکمرانی تیموری میں ’’نان پور‘‘ اسٹیٹ کے جاگیر دار’’ محمد علی اور شوکت علی‘‘ دونوں بھائی ،بنگال کے مسلم حکمراں ’’ملک سرور خواجہ سرور ،الملقب بہ خواجہ خیالی و سلطان الرق ‘‘کے زمانۂ حکمرانی : ۱۴۵۷ء؁ سے ۱۴۷۵ء؁کے ماتحت تھے۔انہیں ایام میں انگریزوں کے حکم سے ٹیکس کی وصولی کے لئے ’’شیو پرشاد یا شیو سنگھ ‘‘نان پور اسٹیٹ کے مالک محمد علی کے پاس آیا تھا۔جس کے سبب محمد علی نے اسے قتل کر دیا اور پھر ابراہیم شاہ شرقی کے حکم سے جنگ ہوئی اور نان پور ہندوؤں کو قصاص کے بدلے ۱۴۰۲ میںدے دیا گیا۔۱۹۳۷ ؁ء میں نان پور اسٹیٹ کی حیثیت ریجکٹ ہو گیا ہے۔
یہ ہے نان پور کی مختصر ترین تعارف!جس سے ثابت ہے کہ یہ شہر کل متھلا کی دسویں یا گیارہویں راجدھانی شہر ہے۔یہاں پر صرف ضروری طور پر عام جانکاری کے لئے میں نے اپنے سفر کے دوران اپنی کتاب ’’تاریخ نان پور‘‘ میں سے نان پور کی مختصر تاریخ بشکل مضمون پیش کر دیا ہے۔مزیدنان پور کی تاریخ بشمول کل متھلا اور کل ہند کی مفید و نہایت معلوماتی تاریخ حاصل کر نے کے لئے میری ۶۰۰؍ صفحات پر مشتمل نایاب کتاب’’ تاریخ نان پور‘‘کا مطالعہ کیجئے!

Related posts

گلوبل وارمنگ جیسے حساس مسئلے سے نمٹنا ضروری

Hamari Duniya

ہندوستان کے مالامال ورثے کا تحفظ: حکومتی اقدام اور ثقافتی احیاء

Hamari Duniya

عامر سلیم خان

Hamari Duniya