January 26, 2025
Hamari Duniya
مضامین

سیرت النبی ﷺ حضرت محمد ﷺ کے اخلاق

Asim ul Din 

 عاصم الدین اکرام الدین
مدرس سید محسن اردو ہاںٔی
 اسکول شیونی ،اکولہ

اللہ تعالی اللہ تعالی نے انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا میں بھیجا ہےانبیاء کی تعلیمات یہ ہیں کہ اللہ تعالی ہر شے پر محیط ہے اللہ تعالی ہم سب کے خالق ہیں اور تمام دنیا اللہ تعالی کی مخلوق ہیں اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بناکر بھیجا۔ اللہ تعالی نے جو مقام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے اس پر تمام انبیاء فخر کرتے ہیں اللہ تعالی اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیںاللہ تعالی فرماتے ہیں جو بندہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے اور محبت کے لیے ضروری ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بار بار مطالعہ کرے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزاری ہے، ہم بھی اس کاملی مظاہرہ کریں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس اعمال کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا ہے، ہم وہ عمل کریں، جس عمل سے منع فرمایا ہے وہ ہم عمل نہ کریں۔ 

اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے 10 سال گزر چکے تھے مکے کے سرداروں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ پر پابندی لگا دی انہیں کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں تھیان حالات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلممکہ کے قریب کے شہر اور بستیوں کا انتخاب کیا تاکہ لوگوں کو اللہ تعالی کا پیغام سنایا جائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید رضی اللہ عنہ کو لے کر طائف تشریف لے گئے۔
نبوت مل جانے کے نو برس تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تبلیغ فرماتے رہےقوم کے اصلاح کی کوشش فرماتے رہے یہ تھوڑی سی جماعت کے سوا جو مسلمان ہو گئے تھےاب تھوڑا سا ایسے لوگ جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے تھے اکثر کفار مکہ اپ کو اور اپ کے ساتھ کو تکلیف پہنچاتے تھےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی ان لوگ ان نیک لوگوں میں تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے کی بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے10 سال کی عمر میں جب ابو طالب کا بھی انتقال ہوگا تو کفار مکہ کو تکلیف پہنچانے کا موقع مل گیا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے طائف تشریف لے گیے کہ وہاں قبول ثقیف کی ایک بڑی جماعت ہےکہ اگر وہ قبیلہ مسلمان ہو گیا تو مسلمانوں کو ان تکلیف سے نجات ملےاور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑ جائےوہاں پہنچ کر قبیلے کے تین سال تین سردار جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے۔گفتگو فرمائیں اور اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اللہ کے رسول ہی نے اپنی طرف متوجہ کیا مگر انہوں نے بجائے اس کے کہ ان کی بات کو قبول کرتےیہ یہ کم از کم عرب کے مہمان نوازی کی لحاظ سے ایک نوارد مہمان کی خاطرمدارت کرتے ہیںصاف جواب دے دیا اور نہایت بے رخوں سے بد اخلاقی سے پیش ائےان لوگوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ اپ یہاں مقام فرما لیں جن لوگوں کو سردار سمجھ کر بات کی تھی وہ شریف ہوں گے اور مہذب گفتگو کریں گےان میں سے ایک شخص کہنے لگا اوہوآپ ہی کو اللہ نے نبی بنا کر بھیجا ہے۔

دوسرا بولا اللہ کو تمہارے سوا کوئی ملتا نہیںجس کو رسول بنا کر بھیجتےتیسرے نے کہا کہ میں تجھ سے بات کرنا ہے نہیں چاہتا اگر تو واقعی نبی ہے جیسے کہ دعوی ہے تو تیری بات سے انکار کرنا مصیبت سے خالی نہیں اگر جھوٹ ہے تو میں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا اس کے بعد ان لوگوں سےنا امید ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا اپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمت اور استقلال کے پہاڑ تھےمگر کسی نے بھی قبول نہ کیا بجائے قبول کرنے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے شہر سے فورا نکل جاؤ اور جہاں تمہارے چاہت کی جگہ ہے وہاں چلے جاؤحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان سے مایوس ہو کر واپس ہونے لگے، شریر لڑکوں کو پیچھے لگا دیا جنہوں نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچا ی جس کی وجہ سے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تو ان کے جاری ہونے سے رنگین ہو گئےحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اسے حالت میں واپس بھی جب راستے میں ایک جگہ ان شریروں سے اطمینان ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کیاہے اللہ تجھ سے شکایت کرتا ہوں میں اپنی کمزوری اور بے کسی کی لوگوں میں ذلت اور رسوائی کی اے ارام الراحمین تو ہی ضعفا کا رب ہےتو یہ میرا پروردگار ہے تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے کسی اجنبی بیگانے کیجو مجھے دیکھ کرترس ہوتا ہے اور منہ چڑھاتا ہے یا کسی دشمن کےجس کو تو نے مجھ پر قابو دے دیا ہے۔اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھےکسی کی بھی پرواہ نہیں ہے تیری حفاظت مجھے کافی ہے میں تیرے چہرے کے جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گیں اور جس دنیا اور اخرت کے سارے کام درست ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پہ تیرا غصہ ہو یا تو مجھ سے ناراض ہواس وقت تک دور کرنا ضروری ہےجب تک تو راضی نہ ہونہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوتمالک ملک کی شان کا ہاری کو اس بات پر جوش انا ہی تھاحضرت جبرائیل علیہ السلام نے ا کر سلام کیا اور عرض کیا کہ اللہ تعالی نے اپ کی قوم کی وہ گفتگو سنی جو اپ سے ہوئی۔

اور ان کے جوابات سنیں اور ایک فرشتہ جس کی جس کے ذمے پہاڑوں کی خدمت ہے وہ اپ کے پاس بھیجا ہےاب جو چاہیں اسے حکم دیں اس کے بعد اس فرشتے نے سلام کیا عرض کیا کہ جو ارشاد ہو میں اس کی تعمیل کروں اور اگر زیادہ تو دونوں جہانی کے پہاڑوں کو ملا دوںجس سے سب درمیان میں کچل جائیںیا جو سزا اپ تجویز فرمائیںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم کریم ذات نے جواب دیامیں اللہ سے اس کی امید رکھتا ہوںکہ اگر یہ مسلمان نہیں یہ توان کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا ہوجو اللہ کی پرستش کریں اور اس کی عبادت کریںیہ ہے کلاک ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جن کے ہم نام لیوا ہیںہم ذرا سی تکلیف سے کسی کو معمولی گالی دینے سے ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ پھر عمر بھر اس کا بدلہ نہیں اترتا ظلم پر ظلم اس پر کرتے رہتے ہیںاور دعوی کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کانبی کے پیر بننے کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی تکلیف اور مشقت اٹھانے کے باوجود نہ بددعا فرماتے ہیں نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز کے سوادی سے گزر رہے تھے کسی نے پکارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنبی علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا کہ ایک ہرن بندھی ہوئی ہے اور اس کے قریب ایک ادمی سو رہا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرن کے قریب تشریف لائے تو ہرن نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ادمی نے مجھے پکڑ لیا ہے سامنے پہاڑ میں میرے دو بچے بھوکے ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے مجھے ازاد کر دیں میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤ گی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرن کی بات سن کر اس کی رسی کھول دی ہرن وعدے کے مطابق بچوں کو دودھ پلا کر واپس اگئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے رسی سے باندھ رہے تھے کہ سویا ہوا آدمی اٹھ گیا وہ شخص سمجھا کہ وہ ہرن اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند اگئی اس ادمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہرن اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں پیش کرتا ہوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرن کو ازاد کر دیا ہرن ازاد ہونے کے بعد خوشی سے بھاگتی ہوئی بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہی تھی جیسے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کر رہی ہو اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے لیے رحمت اللعالمین بنا کے بھیجا ہے چرین پرین نباتات فرشتے اور انسان سب کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاقت اور رحم دلی کا یہ حال تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو بھی تکلیف میں دکھ دیکھ کر بے چین ہو جاتے تھے پرندے جانور بھی اس بات سے واقف تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کا دکھ درد سنتے اور ان کی مدد کرتے تھے۔

Related posts

’سوچھتا ہی سیوا پکھواڑہ‘: کچرے سے پاک ہندوستان کے لیے عوامی تحریک

Hamari Duniya

دینی مدارس، ہمارے سماج اور معاشرے کو کیا دے رہے ہیں

Hamari Duniya

اس نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندرہونا

Hamari Duniya