17.1 C
Delhi
December 11, 2024
Hamari Duniya
دہلی

ایس آئی او نے جاری کیا طلبائی منشور: شمولیاتی تعلیم اور سماجی انصاف پر توجہ کا مطالبہ

SIO

نئی دہلی، 17 فروری: 17 فروری کو پریس کلب آف انڈیا میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے طلبائی منشور کا اجراء کیا جس کا مقصدہندوستان میں تعلیم، اقلیتوں اور سماجی بہبود سے جڑے مسائل کو حل کرنا تھا۔ قومی صدر رمیس ای کے نے قومی سیکریٹریز عبد اللہ فائز اور ڈاکٹر روشن محی الدین کے ہمراہ میڈیا کو مخاطب کیا اور منشور کی تفصیلات بیان کیں۔طلبائی منشور، طلباء کے ان مطالبات پر مشتمل ہے جسے ایس آئی او 2024ء کے پارلیمانی انتخابات کا مرکز توجہ بنانا چاہتی ہے۔ طلبائی منشور میں درج ذیل امور کو نمایاں کیا گیا ہے۔
مساویانہ ریزرویشن: ایک بہتر اور منصفانہ ریزویشن کے نظام کی تائید تاکہ تمام کے لئے مواقع کو یقینی بنایا جاسکے۔
سماجی-معاشی طور پر پسماندہ اضلاع پر خصوصی توجہ: متوازن ترقی کے لیے حاشیہ زدہ علاقوں کی اٹھان پر توجہ
روہت ایکٹ کا نفاذ: طلباء کے تحفظ اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے
مانف(MANF) کی بحالی اور اقلیتوں کی اسکالرشپ میں اضافہ: تعلیم تک مساوی رسائی کے لیے اقلیتی طلباء کو مالی امداد کی فراہمی
مخالف امتیازی قانون: امتیازی سلوک اور عصبیت سے پاک سماج کے لیے جدوجہد
سخت پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن قانون اور پرائیویسی چارٹر: افراد کی رازداری اور ڈاٹا کی محافظت ۔
ماحولیات اور استدامی فنڈ- 100 کروڑ: ماحولیاتی اقدامات اور استدامی سرگرمیوں کے لیے وقف
ملک بھر میں نوجوانوں کے لیے صحت اور ذہنی تندرستی کے مراکز: نوجوانوں کی ہمہ جہتی صحت کو ترجیح بنانا
ابتدائی سے یونیورسٹی کی سطح تک مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانا: تمام کے لیے قابل رسائی تعلیم کا عزم
نوجوانوں کے لیے ضمانت روزگار قانون: ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کی ضمانت اور مواقع کو ہموار کرنا

پریس میٹ میں ایس آئی او کی قیادت نے ملک کے تعلیمی منظرنامے کے پریشان کن رجحان پر بات کی۔ مجموعی خواندگی کی شرح 74.04% ہونے کے باوجود ، جو کہ 86.3% کے عالمی اوسط سے کافی کم ہے، کئی ریاستیں بہ مشکل ہی ملکی سطح کو عبور کرپاتی ہیں۔ رمیس ای کے نے مرکز کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے لیے کلیدی تعلیمی اسکیموں کو بند کرنے، دوسروں کے لیے دائرہ کار کو محدودکرنے، وزارت برائے اقلیتی امور کےما تحت پروگراموں پر اخراجات کو گھٹانے اور جی ڈی پی میں تعلیمی بجٹ کے حصہ کو 2.9 فیصد تک کم کرنے ، جو قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں 6 فیصد کے متعینہ ہدف سے کافی کم ہے(جیسے اقدامات پر) تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے اس صریح تضاد کی جانب توجہ مبذول کروائی جو ہندوستان اور دیگر ممالک جیسے جاپان، کینیڈا اور فرانس کے جی ڈی پی میں مختص عوامی صحت کے حصوں میں پائی جاتی ہے۔ بھارت کے 2.1% کے بالمقابل مؤخر الذکر ممالک تقریباً 10 فیصد حصہ مختص کرتے ہیں۔
بے روزگاری اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پارلیمنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں، وزیر اعظم کے دفتر نے کہا کہ یکم مارچ 2023 تک تمام وزارتوں میں تقریباً 10 لاکھ اسامیاں خالی تھیں۔جبکہ حکومت یونیورسٹیوں اور وزارتوں میں خالی اسامیوں کو پر کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ امتحان اور تقرری کے عمل میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور دھاندلی پائی جاتی ہے۔
مسلم طلباء میں ڈراپ آؤٹ کی تشویش ناک شرح کو موضوع بحث بناتے ہوئے، ڈاکٹر روشن محی الدین نے اس بات پر زور دیا کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے 23.1% ڈراپ آؤٹ ریٹ کی نشاندہی کی ہے ، جو کہ 18.96% کے قومی اوسط سے متجاوز ہے۔ مسلم طلباء کا داخلہ 2019-20 میں 5.5% سے کم ہوکر تعلیمی سال 2020-21 میں 4.6% ہوکر رہ گیا ہے۔ روشن نے علمی آزادی کےروبہ زوال ہونے پر بھی روشنی ڈالی، جو کہ وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کردہ علمی آزادی کے اشاریہ میں 179 ممالک کی فہرست میں بھارت کا مقام نچلے 30 فیصد میں ہونے سے ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے ذہنی صحت کے بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 15 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ خودکشی ہے، ہر 42 منٹ میں اوسطاً 34 طلباء اپنی جانیں لے رہے ہیں۔

عبداللہ فائز نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ڈوٹو ڈیٹا بیس کا حوالہ دیتے ہوئے، نفرت پر مبنی جرائم میں تیزی سے اضافے کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ انہوں نے انسانی جانوں کے تحفظ اور مذہبی امتیاز کے سدباب کے لیے فوری توجہ دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اور نوجوان اس ملک کا سب سے بڑا حلقہ ہیں اور سیاسی جماعتوں کو ووٹ مانگتے وقت ان کی ضروریات کو بطورخاص طور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منشور سیاسی جماعتوں سے تقاضا کررہا ہے کہ وہ ملک کے مستقبل میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طلباء اور نوجوان نِرے وعدوں یا تفرقہ انگیز سیاسی ایجنڈوں سے بھٹکنے والے نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ ٹھوس انتخابی منشور کا مطالبہ کرتے ہیں جو قابل رسائی اور معیاری تعلیم، روزگار، امن اور محفوظ ماحول کی ضمانت دے سکے۔

Related posts

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام دوروزہ قومی سمینار’غالب کے تین اہم معاصرین:صہبائی، آزردہ اور شیفتہ‘ اختتام پذیر

Hamari Duniya

دہلی یوتھ ویلفیئر ایسو سی ایشن ( ڈائیوا) کے سالانہ تقریب میں ہونہار طلباءو طالبات کوایوارڈ سے نوازا گیا

Hamari Duniya

بچے ہی دنیا ہیں اور بچے ہی ہندوستان کے مستقبل ہیں:ڈاکٹر قطب الدین شجاع

Hamari Duniya