ذاکر حسین بانی الفلاح فاؤنڈیشن alfalahfoundation98@gmail.com
نہایت مردم خیز خطہ آعظم گڑھ میں وقتاً فوقتاً ایسی شخصیات نے جنم لیا ہے،جنہوں نے نہ صرف تاریخ کے اوراق پر اپنے اثرات مرتب کئے بلکہ پورے ملک اور عالم کو اپنی کارکردگی سے دنیا کو ایک نیا رخ دیا۔انہیں میں سے ایک نام علامہ شبلی نعمانی کا ہے۔شبلی نعمانی کی پیدائش 4 جون 1857 کو اتر پردیش کے ضلع آعظم گڑھ کے موضع بندول میں ہوئ۔ابتدائی تعلیم مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- اس کے بعد تعلیم کی تشنگی بجھانے کیلئے ملک اور بیرون ممالک کا سفرکیا۔آپ نے وکالت کا بھی امتحان پاس کیا۔
علی گڑھ میں بطور فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور یہیں سے انہیں اپنی تعلیم کو پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ یہیں پر پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ انہوں نے 1892ء میں تھامس آرنلڈ کے ساتھ سلطنت عثمانیہ بشمول شام، ترکی اور مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات کا سفر کیا اور وہاں کے معاشروں کا براہ راست اور عملی تجربہ حاصل کیا۔قسطنطنیہ میں انہوں نے سلطان عبد الحمید ثانی سے تمغہ حاصل کیا۔1898ء میں سر سید احمد خان کی وفات کے بعد، شبلی نے علی گڑھ یونیورسٹی کو باضابطہ چھوڑ کر ریاست حیدر آباد کے محکمہ تعلیم میں مشیر بن گئے۔ انہوں نے حیدر آباد کے تعلیمی نظام میں بہت سی اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان کی پالیسی سے حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی نے اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنایا۔ اس سے پہلے ہندوستان کی کسی اور یونیورسٹی نے اعلیٰ تعلیم میں کسی مقامی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہیں کیا تھا۔شبلی نعمانی کا مزاج تعلیمی اصلاحات و انقلاب کا تھا، چنانچہ اس عہد کی اصلاح تعلیم کے لیے اٹھنے والی سب سے مؤثر تحریک ندوۃ العلما سے اول دن سے منسلک اور متحرک، یہاں تک کہ ان کے بنیادی فکری بانیان میں سے ہوئے۔
۔1905ء میں، وہ حیدرآباد چھوڑ کر دار العلوم ندوۃ العلما منتقل ہو گئے، وہاں انھوں نے تدریس و تعلیم اور نصاب میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ وہ پانچ سال تک اس میں رہے، لیکن علماء کا روایتی طبقہ ان کی اصلاحات و انقلاب کی وجہ سے ان کے خلاف ہو گیا، بالآخر انہیں 1913ء لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور اپنے آبائی وطن اعظم گڑھ چلے گئے۔علامہ شبلی نعمانی، یورپ کے طرز پر اردو زبان میں ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کرنا چاہتے تھے، جہاں سے محقق علماء مصنفین کو تیار کیا جائے اور وہاں سے اسلام اور مسلمانوں پر تحقیقی کام ہو۔بالآخر ان کے شاگردوں نے خاص طور سے سید سلیمان ندوی نے اپنے استاذ کا یہ خواب پورا کیا اور اعظم گڑھ میں دار المصنفین قائم کیا۔ ادارے کا پہلا افتتاحی اجلاس شبلی کی وفات کے تین دن کے اندر 21 نومبر 1914ء کو دارالمصنفین کا افتتاح عمل میں آیا۔
شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات و افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو شاعری اور شاعری کی تنقید سے خاص انسیت تھی۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ شاعری اور اس کے دیگر لوازمات سے متعلق اپنے نظریات کو مفصل طور سے “شعرالعجم” میں پیش کیا بلکہ عملی تنقید کے نمونے “موازنۂ انیس و دبیر” میں پیش کیے۔ یہاں شبلی کی جانب داری یا غیر جانب داری سے مجھے سروکار نہیں بلکہ اصول و نظریے سے بحث درکار ہے۔ “موازنے” میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ و استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بھی شبلی نے روشنی ڈالی ہے، جس سے ہمیں ان کے تنقیدی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شبلی کے نظریۂ تنقید کو سمجھنے کے لیے ان کی مذکورہ دونوں کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں یعنی “شعرالعجم” اور موازنۂ انیس و دبیر۔ انہوں نے “شعرالعجم” کی چوتھی اور پانچویں جلدمیں شاعری، شعر کی حقیقت اور ماہیت، لفظ و معنیٰ اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
(بشکریہ،ویکیپیڈیا)
آعظم گڑھ سے تعلیم اور قوم کیلئے طویل سفر کرنے والا یہ عظیم شخص 18 نومبر 1914 کو فانی دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا۔سچ ہیکہ شبلی نہ صرف نظریہ ساز،مفکر،مورخ،تنقید نگار اور ایک مصنف تھے بلکہ ایک قوم پرست انسان تھے۔قوم کیلئے ہمیشہ فکر مند رہنے والے اس عظیم شخص کے ذریعہ قائم کردہ شبلی کالج آج “شبلی ڈے منا رہا ہے۔جشن و مسرت کے قہقہوں کے درمیان ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم سب کو شبلی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔شبلی کے خوابوں کا شبلی کالج میں تعلیم و تربیت کے معیار کو مزید بہتر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔