ریاض،25جنوری۔ سعودی عرب میں ویزا قوانین میں نرمی اور غیر ملکی کاروباریوں کو راغب کرنے کے اقدامات کے نتیجے میں پیشہ ورتارکین وطن کی مملکت میں تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ڈیلائٹ مڈل ایسٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) معتصم دجانی نے العربیہ کو بتایا کہ ان کی اکاونٹنگ فرم سعودی عرب میں اپنی 6,000 مضبوط علاقائی افرادی قوت کی اکثریت کی میزبانی کرتی ہے، اوراس تعداد میں ”سال بہ سال نمایاں طور پر اضافہ ہوگا“۔دجانی کہتے ہیں کہ”سعودی عرب میں تبدیلی کے بڑے منصوبے اوربے مثال اقتصادی ترقی اسے تارکین وطن کے لیے ایک پرکشش مقام بناتی ہے“۔
اگرچہ غیرملکی کارکنوں نے طویل عرصے سے سعودی عرب کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے ، لیکن سماجی اصلاحات کے ساتھ ساتھ روزگار کے بڑھتے ہوئے مواقع اسے زیادہ پرکشش منزل بنا رہے ہیں۔الریاض میں مقیم تارکینِ وطن کے کنسلٹنٹ راشد بیجانی نے کہا:”مملکت میں بہت سارے غیر ملکی آ رہے ہیں … پچھلے چار یا پانچ مہینوں میں،ان کی تعداد میں پاگل پن حد تک اضافہ ہوا ہے“۔
سعودی جنرل آرگنائزیشن برائے سوشل انشورنس (جی او ایس آئی) کے ابتدائی اعدادوشمار سے بھی پتا چلتا ہے کہ حالیہ مہینوں میں غیرملکی کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔جنرل اتھارٹی برائے شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی سوشل انشورنس اسکیم پر دست خط کرنے والے غیر سعودیوں کی تعداد 2022 کی دوسری سہ ماہی میں 198,803 سے بڑھ کر 2022 کی تیسری سہ ماہی میں 1,183,577 ہو گئی تھی۔یہ بیمہ اسکیم زیادہ تر ملازمین کے لیے لازمی ہے۔
حکومت کے متعدد اقدامات نے کمپنیوں کو اپنے سعودی آپریشنز کو وسعت دینے پر مجبورکیا ہے۔اس نے فروری 2021 میں یہ اعلان تھا کہ کاروباری اداروں کو سرکاری معاہدوں پر کام کرنے کے لیے 2023 کے آخر تک سعودی عرب میں اپناعلاقائی ہیڈ کوارٹر قائم کرنا ہوگا۔سعودی پریس ایجنسی نے 2021 میں رپورٹ کیا تھا کہ ڈیلائٹ، یونی لیور اور سیمنز سمیت 44 ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے علاقائی صدردفاترسعودی عرب منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی اور کنسلٹنگ فرم سپریڈیئن ٹیکنالوجیز فروری میں الریاض میں ایک نیا دفتر کھولے گی۔اس میں قریباً 100غیرملکی اورسعودی شہری کام کریں گے۔یہ فرم گذشتہ15 سال سے مملکت میں کاروبار کررہی ہے مگر یہ بنیادی طور پر اپنے دبئی میں واقع دفتر سے کام کرتی ہے۔سعودی حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل نظام کو بہتر بنانے پر زور دینے کے ساتھ کمپنی کومملکت میں نئے مواقع پیدا ہوتے نظرآرہے ہیں۔سپریڈیئن کے سی ای او علی حسن نے کہا:”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ایک ملک کے طور پر سعودی عرب اور ایک خطے کے طور پر مشرقِ اوسط اگلے چند سال میں واقعی ترقی کرنے کوتیارہیں“۔انھوں نے کہا کہ ”ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خطہ اچھی کمپنیوں کی قدر کرتا اورانھیں تسلیم کرتا ہے جو طویل عرصے سے وہاں موجود ہیں، نہ کہ رات میں اڑنے کی قسم ہیں اور ہم مارکیٹ میں حقیقی جگہ بنا سکتے ہیں“۔
لیبر اور ویزا قوانین میں نرمی
نئے لیبر قوانین مارچ 2021 میں نافذالعمل ہوئے تھے۔ان کے تحت تارکِ وطن ملازمین کو اپنے آجر کی منظوری کے بغیر ملازمت تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔خروج اور دوبارہ داخلے کے ویزا سسٹم میں تبدیلی نے ملازمین کو ہرسفر پراپنے آجر سے اجازت لیے بغیر مملکت سے باہر سفرکرنے کی زیادہ چھوٹ دے دی۔حکومت نے 2021 کے اوائل میں ایک نیا عارضی ورک ویزا بھی متعارف کرایا تھا۔اس کے تحت قلیل مدتی ملازمین کو 90 دن تک مملکت میں رہنے کی اجازت مل گئی تھی۔سیاحوں کے لیے وزٹ ویزا میں تبدیلیوں کے ساتھ ، بشمول ستمبر 2022 میں متعارف کرائے گئے کچھ پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے آمد پرویزے کی سہولت ایسی اصلاحات نے سعودی عرب کوغیرملکیوں کے لیے انقلابی طریقے سے کھول دیا ہے۔
ثقافتی تنوع
تاریخی طورپرسعودی عرب میں قدامت پسند طرز زندگی بہت سے غیرملکی کارکنوں کی آمد میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔اگرچہ یہ قانون اب بھی زندگی کے کچھ پہلووں پرپابندیاں عاید کرتا ہے جبکہ ہمسایہ ممالک میں ایسی پابندیاں نافذالعمل نہیں ہیں ، خاص طور پروہاں شراب کی کھلے عام فروخت کی اجازت ہے۔تاہم سعودی حکومت کی بعض سماجی اصلاحات نے تارکینِ وطن کو درپیش کسی بھی ممکنہ ثقافتی جھٹکے یا صدمے کو کم کردیا ہے۔مثال کے طورپرالریاض میں ایسے متعدد کیفے کھلے ہیں جہاں مرد اور خواتین آزادانہ طور پر گھل مل سکتے ہیں اوردارالحکومت کی شارع التحلیہ میں کافی کی ایک جاندار ثقافت ہے جس میں موسم سرما کی راتوں میں تماشائیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔