سعودی کے شہر الجبیل میں سرسید ڈے منایا گیا، ہندوستان سے مدعو مہمان خصوصی طارق صدیقی کا زکوۃ منیجمنٹ سسٹم بنانے پر زور
ریاض ،28دسمبر( ہ س)۔
سعودی عرب کے انڈسٹریل ایریا الجبیل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن الجبیل کے زیر اہتمام سرسید ڈے کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں بی بی سی میں خدمات انجام دے چکے سینئرصحافی قربان علی بطور صدرشریک ہوئے اور ہندوستان سے سیاستدان ، بزنس مین و سماجی کارکن طارق صدیقی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔
سینئر صحافی قربان علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سر سید نے نہ صرف ہندوستان بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی قسمت بدل دی، اس لئے بار بار یاد کرنا بے حد ضروری ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ وہ تعلیم کے پیغمبر ہیں، آنے والی نسلیں ان کی قرض دار رہیں گی۔ سر سید نے تمام تر مخالفت اور پریشانیاں جھیل کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا ادارہ قائم کیا اور افسوس کی بات ہے کہ ڈیڑھ سو سالوں کے بعد بھی سر سید کے نام پر کوئی دوسرا ادارہ نہیں قائم ہو سکا۔ ہندوستان کے سیاستدانوں نے مسلمانوں کا ووٹ لیا لیکن ان کی حالت بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہم نے خود اپنی حالت کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ کوئی پڑوسی کوئی دوسرا ذمہ داری قبول کرلے، لیکن جب تک اجتماعی طور پر متحد ہو کر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھائیں گے تب تک کوئی تبدیلی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔قربان علی نے کہا کہ کوئی بھی ملک مذہبی منافرت کی بنیاد پر نہیں چل سکتا ہے۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد کے حالات سبھی کے سامنے ہیں۔ آج پھر ہندوستان میں مذہبی منافرت اپنے شباب پر ہے۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ سبھی اقلیت، پسماندہ طبقہ اور خواتین کی حالت بہتر نہیں ہے۔ ان میں خوف و ہراس ہے۔ ملک کی بقا اور سالمیت کے لئے سیکولر طبقہ کے ساتھ ہمیں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔
مہمان خصوصی آل انڈیا پروفیشنلس کانگریس کے مشرقی یوپی کے صدر طارق صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری تین پہچان ہیں، ایک ہم مسلمان ہیں، دوسرے ہم علیگ ہیں، تیسرے ہم انڈین مسلمان ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، لیکن خود ذمہ داری لینا نہیں چاہتے ہیں، فرائض کو بھول کر ہم حقوق کی لڑائی میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں عصری اور دینی تعلیم کی مخالفت سے باہر نکلنا ہوگا اور وہ تعلیم جو انسانیت کو فائدہ پہنچائے اسی تعلیم کو دینی اور اصل سمجھنا ہو گا۔ بحیثیت علیگ ہماری ایک منفرد شناخت ہے۔ ہمیں مشکلات سے بھاگنا نہیں چاہیے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو گلے لگانا ہوگا۔ بحیثیت ہندوستانی مسلمان، ہم کہیں بھی کسی بھی ملک میں ہوں، ہمیں اپنے ہندوستان کی ترقی اور بلندی کے لئے فکر کرنا چاہیے۔ ہندوستان ایک بڑی اکنامی ہے، ہمیں فکر کرنی ہوگی کی ہم ہندوستان کی اکنامی میں کس طرح سے کنٹریبیوٹ کریں۔ انہوں نے زکوۃ مینجمنٹ سسٹم پر تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ فرداً فرداً زکوة کی ادائیگی کے ساتھ ہی ایک اجتماعی نظام بنانا چاہیے تاکہ ضروری اور اہم کاموں کو اس کے ذریعے مکمل کیا جا سکے اور جو لوگ ابھی زکوة کے مستحق ہیں انہیں زکوة دینے والا بنایا جا سکے۔
تقریب میں دیگر سینئر علیگ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مہمان ذی وقار عبدالغفور دانش، دمام اموبا کے صدر مسرور حسن خان، انیس بخش، معراج انصاری، سید وحید لئیق، آصف صدیقی، محمد نفیس، باقر نقوی، نوید خان، عارف علی صدیقی، غلام مصطفی، ڈاکٹر سلیم، شعیب قریشی، کلیم صدیقی، ثاقب جونپوری، محمد سراج، عاکف کے علاوہ بڑی تعداد میں علیگ و دیگر لوگ موجود رہے۔