مقتولین کے وارثین نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ؛ کہا، ہمیں عدالت سے انصاف ملا ہے قاتل نے قتل کے بعد لاشوں کو ٹائر میں باندھ کر شہر سے کافی دور لے جاکر جلا دیا تھا مجھےخوشی اس بات کی ہے میں مقتولین کوانصاٖ ف دلانے میں کام آ سکا / ڈاکٹر انعام اللہ اعظمی
ریاض، یکم نومبر : سعودی عرب کی عدالت نے اعظم گڑھ کے تین افراد کے قاتل صنیتان العتیبی کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ 2019 میں کیے گئے قتل کے جرم کے ثابت ہونے کے بعد سنایا گیا ہے، جس میں دو سگے بھائیوں شفقت احمد بن شمس الضحی، شمیم احمد بن شمس الضحی، اور فیاض احمد بن مسعود احمد کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق، قاتل صنیتان العتیبی نے مقتولین کو گھر بلا کر ان کے ہاتھ باندھے، آنکھوں کو ٹیب سے ڈھانپ کر قیدی بنایا اور تیز دھار ہتھیار سے حملہ کر کے ان کا قتل کیا۔ بعد ازاں جرم چھپانے کے لیے مجرم نے لاشوں کوجلادیا، لیکن سعودی قاتل کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔
لگ بھگ پانچ سال تک چلی عدالتی کاروائی میں ، عدالت نے پہلے مرحلے میں حق عام کے تحت فیصلہ سنایا، جس کے بعد حق خاص میں مقتولین کے ورثا نے قصاص (جان کے بدلے جان) کا مطالبہ کیا تھا ۔ 17 اکتوبر 2024 کو سعودی عدالت نے قصاص کا حتمی فیصلہ صادر کیا ۔ مقتولین کے ورثا کو 50 صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے کی نقل فراہم کر دی گئی ہے۔
یہ معاملہ ریاض کے ثمامہ پولیس تھانے کا ہے ، طریق طوقی سے ایک کلومیٹر دور سوق الاہل کے پاس 11 جنوری 2019 کو شفقت احمد کو قاتل نے اپنے گھربلایا ،جب وہ بہت دیر تک واپس نہیں لوٹے تو ان کے دوسرے بھائی شمیم احمد اپنے ایک اور ساتھی فیاض احمد کو لیکربھائی کو تلاش کرتے وہاں پہونچے ۔ قاتل نے انہیں بھی گھر میں بلاکر قتل کردیا ۔ اس طرح تین قتل انجام دیا اورقتل کے بعد ان کی لاشوں کو ٹائر میں باندھ کر شہر سے کافی دور لے جاکر جلا دیا ۔ مقتول شفقت احمد صنیتان العتیبی شفقت کے یہاں کام کرتے تھے ۔ اس معاملے تین لوگوں صنیتان العتیبی ،راشد غوبي اليماحي اور مساعد فالح الشمري کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ عدالت نے صنیتان العتیبی کو سزائے موت دی ہے ، مساعد فالح الشمري کو لاش کو جلانے میں مدد کرنے کے جرم میں ساڑھے 12 سال کی سزا سنائی ہے ، جبکہ راشد غوبي اليماحي اماراتی اول روز سےفرارہے ۔
فیصلے پر مرحوم شفقت احمد ، شمیم احمد اور فیاض احمد کے اہل خانہ نے کہا: “ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملا ۔ فیاض احمد کی بیوہ احمدی بتاتی ہیں کہ ” ہم نے عدالت سے جان کے بدلے جان کا مطالبہ کیا تھا ، اب جو فیصلہ آیا ہے مجھے یہ اطمینان ہوا کہ عدات نے انصاف کیا اورمیرے شوہر کے قاتل کو سزائے موت سنائی ہے ۔ میں نے خود ڈاکٹر انعام اللہ کواپنا وکیل بنایا تھا ،انہوں نے بڑی ایمانداری جاںفشانی سے یہ کیس لڑا ہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر انعام اللہ نے قاتل سے پیسے لے لیے ہیں وہ بالکل بے بنیاد بات کرتے ہیں ، اگر انہوں نے کوئی پیسہ لیا ہوتا توآج یہ فیصلہ نہ آتا “۔ ہم اگلی عدالتی کاروائی کے لیے بھی ڈاکٹر انعام اللہ کو ہی اپنا وکیل رکھتے ہیں “۔
شمیم احمد کی بیوہ رباب کا کہنا ہے ” ہم فیصلے سے مطمئن ہیں ہم نے قصاص کا مطالبہ کیا تھا اور عدالت نے مجرم کوجان کے بدلے جان کا فیصلہ دیاہے ۔ ہمارے وکیل ڈاکٹر انعام اللہ تھے انہوں نے یہ پوری عدالتی کارروائی میں ہماری مدد کی ہمارا مقدمہ لڑا۔ ہم نے انہیں اپنا مقدمہ اپنی مرضی سے انہیں دیا تھا کسی طرح کا کوئی دباو ہم پر نہیں تھا “۔
شفقت احمد کی بیوہ عارفہ نے کہا ” ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہم سعودی عرب کے عدالتی نظام کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں انصاف دیا ہے ۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس پورے عدالتی عمل میں ڈاکٹر انعام اللہ صاحب نے مقدمے کی جس مضبوطی سے پیروی کی ہے میرے اہل خانہ ان کے بے حد ممنون و مشکور ہیں ۔اس موقع پر میں ایک بات یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ جو لوگ اس پورے معاملے میں تماشائی بنے رہے بلکہ مقدمے کو کمزور کرنے کی سازشیں کیں ان کو اس فیصلے نے منہ توڑ جواب دے دیا ہے ۔ جن لوگوں نے ان کی کردار کشی کی ہے وہ سب اس فیصلے سے شرمندہ ہیں ۔ اگر ڈاکٹر انعام نے قاتلوں سے کوئی رشوت لی ہوتی تو کیا آج یہ فیصلہ آتا ؟
مقتولین کے ورثا نے ڈاکٹر انعام اللہ اعظمی کو سعودی عرب میں مقدمہ دیکھنے کے لیے اپنا وکیل مقررکیا تھا ، جنہوں نے اس کیس میں اہم کردار ادا کیا اور قاتل کی جانب سے کی گئی مالی پیشکشوں کو مسترد کر دیا۔ ڈاکٹر انعام اللہ اعظمی نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا کہ کہا کہ ‘ وارثین نے مجھے اپنا وکیل بنایا تھا ، میں نے ان تینوں وارثین کے مطالبے اور مشورے کے مطابق عدالت میں مضبوطی سے مقدمے کی پیروی کی عدالت نے 17 اکتوبر 2024 کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ ہمیں اطمینان ہے کہ عدالت نے قاتل کو قصاص کے بدلے قصاص کا حکم دیا ہے ۔ اس پورے معاملے میں گزشتہ ایک سال سے میرے خلاف جو بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں ان کی بھی حقیقت اس فیصلے سے واضح ہو گئی ہے ۔ وارثین کو انصاف دلانے کے اس عمل میں مجھے جن جن اذیتوں سے گزرنا پڑا وہ میں ہی جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے ۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے میں انصاٖ ف دلانے میں کسی کے کام آ سکا ” ۔
اس پورے معاملے میں مقامی سطح پر وارثین کے مددگار کے طور پر مقدمے کے کاغذات تیار کرانے اور اسے عدالت تک پہونچانے والے عارف نسیم کہتے ہیں کہ ” فیصلہ وہی آیا ہے جو وارثین کا مطالبہ تھا میں نے شروع سے ہی مقدمے کے لیے کاغذات کی تیاری میں مقتولین کے وارثین کی مدد کی ہے۔ ورثا نے اپنی مرضی سے ڈاکٹر انعام اللہ کو اپنا وکیل بنایا تھا ، مقدمہ چلتا رہا جب فیصلے کے مرحلے میں داخل ہوا تب گزشتہ ایک سال سے ڈاکٹر انعام کو بدنام کرنے والی تحریریں سوشل میڈیا پرآنی شروع ہوئیں ۔ بھلا بتائیں کہ جب وارثین نہیں چاہ رہے ہیں کہ کوئی اور ان کا کیس لڑے تو یہ دوسرے لوگ کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ ڈاکٹر انعام مقدمے کی پیروی چھوڑ دیں ۔ اصل بات تو مقتولین کے وارثین کی مانی جائے گی ” ۔
سبھی وارثین نے انصاف کی اس لڑائی میں ہرممکن تعاون کے لیے پوروانچل ایسوسی ایشن کے صدرعبدالاحد صدیقی، نائب صدر محمد عامر اعظمی، امام یونیورسٹی کے اسکالر جاوید خان کا شکریہ ادا کیا ہے اور ساتھ ہی ریاض میں قائم ہندوستانی سفارت خانے کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے، جس کی بروقت مدد سے انہیں انصاف مل پایا ۔