16.1 C
Delhi
January 21, 2025
Hamari Duniya
Breaking News علاقائی خبریں

لوک ادب بھائی چارہ، قومی یکجہتی اور اخوت کا ضامن 

Sahitya Academy and Anjuman Taraqqi Urdu Symposium in Gulbarga
”اردو میں لوک ادب ”کے زیرِ عنوان ساہتیہ اکاڈمی دہلی اور انجمن ترقی اردو گلبرگہ کے زیرِ اشتراک ایک روزہ کامیاب سمپوزیم
چندربھان خیال،خواجہ محمد اکرام الدین،،فاروق بخشی، آمینہ تحسین، پنکج پراشر اور مقامی محققین، اسکالرز اور قلمکاروں کا خطاب 
گلبرگہ، 17دسمبر : اردو کا لوک ادب عوامی ادب کا عظیم سرمایہ ہے جسے ہم نے فراموش کر دیا ہے اس خیال کا اظہار ممتاز ادیب و شاعر صحافی چندر بھان خیال کنونیر اردو ایڈوائزری بورڈ ساہتیہ اکاڈمی دہلی نے کیا وہ ساہتیہ اکادمی دہلی اور انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ کے زیر اہتمام حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ایوانِ اردو انجمن ترقی اردو گلبرگہ میں ” اردو میں لوک ادب”  کے زیرِ عنوان منعقدہ ایک روزہ سمپوزیم میں صدارتی تقریر کر رہے تھے انہوں نے لوک ادب کو 600 سالہ قدیم بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بحث آج بھی جاری ہے کہ اردو کا لوک ادب پہلے ہے یا ہندی کا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لوک ادب اردو کی میراث ہے اور یہ ادب اس دور میں تخلیق پایا جب ہندی کا وجود ہی نہیں تھا چندر بھان خیال نے مزید کہا کہ پیدائش شادی اور زندگی کے تمام مراحل پر اردو کے لوک ادب میں گیت پائے جاتے ہیں انہوں نے عصرِ حاضر میں اردو کے لوک ادب کو زندہ اور اسے عام کرنے پر زور دیا پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین سنٹر آف انڈین لینگویجز اسٹڈیز جواہر لال یونیورسٹی نئی دہلی نے سمپوزیم میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے اردو لوک ادب کی تاریخ اس کی اہمیت معنویت پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اردو لوک ادب کو دکن کی دین بتایا انہوں نے کہا کہ زبان کی تاریخ جتنی قدیم ہے اردو ادب کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے انہوں نے کہا کہ لوک ادب اس دور میں تخلیق کیا گیا جب ہندی اور اردو کا وجود ہی نہیں تھا پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ صوفیائے کرام نے ناصحانہ کلام سے اردو ادب کو مالامال کردیا لوک ادب کا ایک بڑا حصہ صوفیانہ نظریات پر مشتمل ہے صوفیائے کرام عموماً عوامی اور اصلاحی شاعر ہوا کرتے تھے صوفیا نے لوک ادب میں اصلاح کے ساتھ ساتھ تصوف کے نکات کو بھی شامل کیا انہوں نے کہا کہ چونکہ خواتین کے احساسات و جذبات خالص ہوا کرتے ہیں اسی لئے لوک ادب کے گیتوں میں خواتین کے کردار بہت زیادہ پائے جاتے ہیں. ڈاکٹر ماجد داغی معتمد انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ و پروگرام کوآرڈینیٹر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے گلبرگہ شہر کی علمی،ادبی،تہذیبی،تاریخی اور روحانی مسلمہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے گلبرگہ شہر کو اردو ادب کا اولین شعری و نثری آثار کا مَلْجا و ماویٰ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ساہتیہ اکاڈمی دہلی اور انجمن ترقی اردو گلبرگہ کا یہ مشترکہ سمپوزیم دراصل حضرت خواجہ بندہ نوازؒ اور ان کے سلسلے کے بزرگوں کی تصانیف کا ” اردو میں لوک ادب” کے حوالے سے اس علاقے میں اردو کے اولین نثری و شعری آثار کی گمشدہ کڑیوں کی تلاش میں اہم ترین پیش رفت ثابت ہوگا. ڈاکٹر ماجد داغی نے ” اردو میں لوک ادب” سمپوزیم کے انعقاد کیلئے چندر بھان خیال کنونیر اردو ایڈوائزری بورڈ ساہتیہ اکادمی سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستانی زبانوں کی ترقی وترویج ادبی سرگرمیوں کے فروغ ادبی معیارات کے استحکام اور ہندوستانی زبانوں کے مابین باہم روابط جیسے اہم مقاصد کے تحت ساہیتہ اکاڈمی کا قیام عمل میں لایا انہوں نے انجمن ترقی اردو گلبرگہ کی 60 سالہ خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انجمن اردو زبان وادب کے فروغ اور اردو ذریعہ تعلیم کے استحکام کیلئے مسلسل سرگرم ہے. ڈاکٹر اکرم نقاش صدر انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو کا لوک ادب غیر معمولی اہمیت کا متحمل ہے انہوں نے کہا کہ اردو کے مخالفین اردو کے لوک ادب کو ہی ہندی کا لوک ادب بتاتے ہیں انہوں نے اردو کے لوک ادب کی تاریخ کا جائزہ لینے اور اردو کی نئی نسل بالخصوص ریسرچ اسکالرس کو اردو کے لوک ادب کی افادیت و معنویت سے واقف کروانے کیلئے انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ نے ساہتیہ اکادمی کے اشتراک سے اردو میں لوک ادب کے زیرِ عنوان بامقصد سمپوزیم منعقد کیا ڈاکٹر وہاب عندلیب سابق صدر کرناٹک اردو اکادمی بنگلور نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی ابتداء میں کارروائی کا آغاز ڈاکٹر سلمان عبد الصمد کے بی این یونیورسٹی کی قراتِ کلام پاک سے ہوا چندر بھان خیال نے پودے کو پانی دے کر سمپوزیم کا افتتاح کیا. 
                ڈاکٹر اکرم نقاش صدر انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ نے سمپوزیم کے پہلے سیشن کی صدارت فرمائی اور سمپوزیم میں پڑھے گئے مقالات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے مقالہ نگاران کی اردو میں لوک ادب پر تحقیق و جستجو کی ستائش کی. پروفیسر آمنہ تحسین صدر شعبہ نسواں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے ” اردو لوک ادب میں نسائی فکر و اظہار کی جہتیں ” کے زیرِ عنوان نہایت جامع اور پر مغز مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوک ادب میں خواتین کی عملی حصہ داری بہت زیادہ ہے انہوں نے خواتین کو انسانی بقاء کی اہم طاقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ نسائی احساسات و جذبات چونکہ فطری ہوتے ہیں اسی لئے نسائی احساسات و جذبات کا عنصر لوک ادب پر غالب ہے لوک ادب سے خواتین کی سماج میں کلیدی حصہ داری کا پتہ چلتا ہے انہوں نے ڈھولک کے گیتوں محاوروں کہانیوں کے لفظیات کو لوک ادب کی مقبولیت کی وجہ قرار دیا انہوں نے خواتین کی حصہ داری لسانی تہذیبی اہمیت صنفی سماجی پس منظر کو سمجھنے پر زور دیا انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ادب میں خواتین کو محض کرداروں کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ ان کے سماجی پہلو کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے پروفسیر آمنہ تحسین نے مزید کہا کہ آج خواتین کی سماجی حصہ داری کی باتیں کی جارہی ہیں جبکہ صوفیائے کرام نے 600 سال قبل خواتین کی سماجی حصہ داری کو اجاگر کیا تھا. ڈاکٹر ماجد داغی نے ” حیدرآباد کرناٹک میں لوک ادب کی روایت” کے زیرِ عنوان مقالہ میں حضرت خواجہ بندہ نوازؒ گیسودراز اور ان کے خانوادے، مریدین و خلفاء اور سلسلے کے بزرگوں کے علاوہ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ اور ضلع بیدر کے فیضی کی شعری تخلیق مثنوی نل دمن حیدرآباد کرناٹک میں لوک ادب کی اولیت کا بین ثبوت ہیں. مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کو لوک ادب کی تاریخ میں اضافہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دکن کی شعری اور نثری تخلیقات میں لوک ادب کے آثار نمایاں ہیں انہوں نے کہا کہ علاقہ کلیان کرناٹک میں محرم میں کلغی طرہ کے مقابلہ جات اور تہواروں کے گیتوں کے ذریعے لوک ادب آج بھی زندہ ہے. ڈاکٹر پنکج پراشر صدر شعبہ ہندی علیگڈھ مسلم یونیورسٹی نے کہا کہ اردو ادب فارسی کے زیرِ اثر اور کلاسیکل ہونے کے باعث اس کا معیار بہت بلند ہے انہوں نے فارسی کو ہندی سے نہایت قریب بتاتے ہوئے کہا کہ لوک ادب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا کوئی مصنف یا شاعر نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ لوک ادب کے الفاظ کے معنی مستقل نہیں ہوتے بلکہ علاقے کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں پنکج پراشر نے لوک ادب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا کہ اس ادب نے زمینی سطح پر قومی یکجہتی اور مشترکہ تہذیب کو فروغ دیا انہوں نے اس بات پر سخت اظہارِ تاسف کیا کہ آج لوک ادب کو فراموش کردینے کے نتیجہ میں قومی یکجہتی اور مشترکہ تہذیب کو سنگین خطرات لاحق ہیں انہوں نے کہا کہ لوک ادب کو ہندی اور اردو میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا. ڈاکٹر اسماء تبسم صدر شعبہ اردو بی بی رضا ڈگری کالج گلبرگہ نے ” لوک ادب کل آج اور کل” کے زیرِ عنوان مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوک ادب اپنے دور کی تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے، اردو لوک ادب کی اہمیت اس لئے ہے کہ اس میں مذہب تصوف اور سماجی موضوعات پر لوک گیت کا سرمایہ موجود ہے اسماء تبسم نے لوک ادب کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں تک اس کو پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا.
                  سمپوزیم کے دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر جلیل تنویر موظف صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج گلبرگہ نے کی پروفیسر فاروق بخشی سابق صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے لوک ادب کو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا حصہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت امیر خسروؒ  نے جس لوک ادب کی بنیاد ڈالی وہ اگر اسی ڈگر پر جاری رہتا تو آج ملک میں بھائی چارہ کی فضا کو جو سنگین خطرات لاحق ہوئے ہیں ان کی نوبت نہیں آتی انہوں نے کہا کہ انسانی رواداری ایک دوسرے کی خوشی غم اور تہواروں میں شریک ہونے کی اسلاف کی وراثت کو ہم نے نظرانداز کردیا جس کے نتیجہ میں آج ہمارے اور برادرانِ وطن کے مابین خلیج پیدا ہوگئی. پروفیسر فاروق بخشی نے اجمیر کی درگاہ شریف کے حوالے سے کہا کہ ہمیں اس بات کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم سے کتنی بڑی چوک ہوگئی ہے کہ آستانوں کی ملی جلی تہذیب پر مخصوص نظریات کی یلغار ہورہی ہے انہوں نے مزید کہا کہ لوک ادب میں بے پناہ موسیقیت ہوا کرتی ہے اور لوک گیت موسیقی کی بحروں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں لوک گیت انسانی قلوب پر راست اثر انداز ہوتے ہیں پروفیسر فاروق بخشی نے اس بات پر سخت اظہارِ تاسف کیا کہ لوک ادب کو ادبی تاریخ کا حصہ نہیں بنایا گیا ڈاکٹر منظور دکنی لکچرر شعبہ اردو فارسی گلبرگہ یونیورسٹی نے ” اردو لوک ادب کے عوامی فلمی گیتوں پر اثرات” کے زیرِ عنوان مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دکنی شعراء نے لوک گیتوں کو زبردست فروغ دیا انہوں نے مزید کہا کہ لوک گیتوں میں پائے جانے والے زندگی کے جمال، رنگینیوں اور سرمستیوں کی وجہ سے ان گیتوں کو زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ڈاکٹر منظور احمد دکنی نے کہا کہ ایک دور تھا فلمی گانے غم اور خوشی دونوں موقعوں پر عوامی زندگی کا حصہ تھے محمد یوسف رحیم بیدری شاعر و ادیب صحافی نے ” اردو کا لوک ادب نمونہ کلام” کے زیرِ عنوان مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوک گیت شاعری کے آغاز سے بہت پہلے وجود میں آئے انہوں نے اس بات سے شدید اختلاف کیا کہ لوک گیت شعری ضابطہ کے تحت نہیں لکھے گئے انہوں نے تختی کرتے ہوئے بتایا کہ اردو کے لوک گیتوں کا تعلق بحر میر سے ہے محمد یوسف رحیم بیدری نے مزید کہا کہ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ اردو کا لوک ادب دم توڑ چکا ہے بلکہ لوک ادب آج بھی زندہ ہے انہوں نے بھی لوک ادب کو دکن کی میراث بتاتے ہوئے کہا کہ علاقہ کلیان کرناٹک میں آج بھی محرم کلغی طرہ مقابلہ جات ہوتے ہیں دیہاتوں میں لوک گیت گائے جاتے ہیں ڈھولک کے گیتوں سے بھی لوک ادب زندہ ہے شہنائی پر بھی لوک گیت بجائے جاتے ہیں محمد یوسف رحیم بیدری نے ٹیپو سلطان پر مروجہ لوک گیت لوریوں پہلیوں اور ڈھولک کے گیت کے نمونے بہترین ترنم کے ساتھ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آج بھی اردو لوک ادب کس طرح عوامی استعمال میں ہے پروفسیر ڈاکٹر جلیل تنویر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ لوک گیت چونکہ شاعری پر مشتمل ہیں اسی لئے وہ باقی ہیں لیکن لوک ادب کا نثری سرمایہ جو کہانیوں پر مشتمل تھا صفحہ قرطاس پر نہیں آسکا انہوں نے لوک ادب کو انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کا موثر ذریعہ بتاتے ہوئے اردو میں لوک ادب کے موضوع پر سمپوزیم کے کامیاب انعقاد کیلئے انجمن ترقی اردو گلبرگہ کے عہدیداران کو مبارکباد پیش کی. پروفیسر اطہر معز  کے بی این یونیورسٹی و ایڈیٹر روزنامہ کے بی این ٹائمز نے افتتاحی سیشن کی نظامت بحسن و خوبی انجام دی اور ڈاکٹر محمد افتخار الدین اختر نائب صدر انجمن ترقی اردو گلبرگہ نے پہلے سیشن کی اور محمد صلاح الدین خازن انجمن نے دوسرے سیشن کی نظامت کے فرائض انجام دیں. جناب واجد اختر صدیقی نے شکریہ ادا کیا۔

Related posts

جامعہ خلفاء راشدین پورنیہ میں بزم جوہروبزم پاریکھ کا آغاز

Hamari Duniya

پہلا دو روزہ کل نیپال مسابقہ حفظ قرآن کریم اختتام پذیر

Hamari Duniya

بنگلہ دیش کو شکست دے کر پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا، چاروں ٹیمیں فائنل

Hamari Duniya