مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں قاری مشتاق احمد کی حیات وخدمات پر عالمی سمینار،قاری مشتاق احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے: خالد رشید فرنگی محلی
لکھنؤ ،09 نومبر(ایچ ڈی نیوز)۔
رئیس القراء حضرت قاری مشتاق احمد نے مدرسہ عالیہ عرفانیہ کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا، ان ہی کا جہدمسلسل کا ثمرہ ہے کہ چھوٹا سا ادارہ آج تناور درخت کی شکل لے چکا ہے، انہوں نے تعلیم و تعلم اور طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے اپنی پوری زندگی کھپادی۔ ان خیالات کا اظہارمدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنؤ میں منعقد’’ قاری مشتاق احمد پرتاپ گڑھی حیات وخدمات ‘‘ کے عنوان سے ایک روزہ عالمی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم مولانا سید بلال عبدالحئی حسنی ندوی نے کیا۔انہوں نے کہا کہ قاری مشتاق احمد رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے قوت عمل اور انتظامی امور اور نظم ونسق کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیش بہا خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی۔
وہ عظیم باپ کے باکمال فرزند ارجمند تھے، ہزاروں طلبہ نے ان سے فیض حاصل کیا اور وہ پوری دنیا میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جو یقینی طور سے حضرت قاری صاحب کے لئے ذخیرۂ آخرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ قاری صاحب کے فرزند قاری امتیاز احمد پرتاپ گڑھی ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے بڑھائیں گے۔قاری صاحب کی قرآنی خدمات اظہر من الشمس ہے، یہاں کے فارغین قاری اور حضرت مولانا محمد احمد پھولپوری کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں گے۔امید کرتا ہوں کہ قاری امتیاز احمد کی قیادت میں یہ ادارہ مزید آگے بڑھے گااور اس کا فیض پوری دنیا میں پورے آب وتاب کے ساتھ پھیلے گا۔
اس موقع پر مدرسہ عالیہ عرفانیہ کے ناظم ومہتم اور قاری صاحب خلف الرشید قاری امتیاز احمد پرتاپ گڑھی کے ذریعہ مرتب کیا گیا مضامین کا مجموعہ ’’نقوش مشتاق ‘‘ کا اجرا بھی اکابر علما کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا حسنی نے مرتب کتاب قاری امتیاز احمد کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’نقوش مشتاق‘‘ آنے والی نسلوں کے لیے انتہائی مفیدثابت ہوگا ـــ۔
دارالعلوم فرنگی محل کے ناظم وامام عیدگاہ لکھنؤ مولانا خالد رشید فرنگی محلی ندوی نے کہا کہ قاری مشتاق احمد کی شخصیت ہمہ گیر تھی، ان کی خدمات مختلف جہات میں پھیلی ہوئی ہے،ان کی خدمات پر عالمی سمینار کا انعقاد مثبت قدم ہے، اس سے ان کی خدمات کو احاطہ میں لانا آسان ہوگا ۔انہوں نے قاری صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے قاری امتیاز احمد پرتاپ گڑھی کو حوصلہ دیا اور موجودہ قیادت کو سراہا۔دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے استاذ حدیث مولانا خالد ندوی غازیپوری نے قاری صاحب کی خدمات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ قاری صاحب نے اپنی طویل جدوجہد کے بعد اتنا خوبصورت قلعہ تعمیر کیا جو آپ کے سامنے ہے اور جس کا فیض پوری دنیا میں مسلم ہے۔قاری صاحب کی نجات کے لیے یہاں کے فارغین کافی ہیں۔ مولانا کفیل اشرف نے کہا کہ قاری صاحب اخلاص واخلاق کے اعلیٰ نمونہ پر فائز تھے، وہ اپنے شاگردوں اور عزیزوں سے پے پناہ محبت وشفقت کا معاملہ کرتے تھے۔
انجمن فلاح دارین کے بانی وصدر مولانا جہانگیر عالم قاسی نے کہا کہ انسان خداکی گرفت سے تو بچ جاتا ہے، لیکن انسان کی گرفت سے نہیں بچ سکتا ہے، ہمارے سامنے جب نعمت ہوتی ہے تو اس کی قدر نہیں کرتے ہیں اور جب نعمت چھن جاتی ہے تو اس کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ قاری صاحب کو حالات حاضرہ پر گہری نظر تھی، وہ صاحب بصیرت ، دوراندیش اور بڑے فیاض بزرگ تھے، بڑی خاموشی کے ساتھ ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے، جو ہمارے سماج سے عنقا ہے۔ قاری صاحب تمام مدارس کے لئے مشعل راہ تھے، وہ بہترین منتظم اور عظیم مربی تھے۔ پروگرام کا آغاز مدرسہ عالیہ عرفانیہ کے تجویدوقرأت کے استاد قاری ہارون تجویدی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا،جبکہ ترانہ منظر عالم عرفانی اور ان کے ساتھیوں نے پیش کیا۔ قاری مشتاق احمد کے نام نامی دوایوارڈ قاری مشتاق احمد پرتاپ گڑھی ؒ خادم القرآن ایوارڈ جناب قاری موسیٰ سیدات ناظم اعلیٰ مدرسہ ضیاء البدر سائوتھ افریقہ اور دوسرا ایوارڈ جناب قاری احمد اللہ عرفانی استاذ مدرسہ تجویدالقرآن خیروا مشرقی چمپارن کو سمینار کے کنوینرقاری امتیازاحمد نے پیش کیا۔اس موقع پر ملک وبیرون ملک میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں بہتر کاکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ابنائے عرفانیہ کو خصوصی مدعو کرکے انہیں ’’فخر عرفانیہ ‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس موقع پر سمینار شریک ہونے والے ابنائے عرفانیہ کی جانب سے ادارہ کے مہتمم جناب قاری امتیاز احمدپرتاپ گڑھی کوخصوصی طور پران کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک یادگار مومنٹو پیش کیا گیا۔سمینار کی نظامت مولانا ساجد الاعظمی نے کی ۔سمینار میں خصوصی طور پر سائوتھ افریقہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ،نیپال، بہار ،بنگال، جھارکھنڈ ،آندھر پردیش، دہلی، کرناٹک واتر پردیش کے مختلف اضلاع کے علاوہ لکھنؤ علمائے کرام ودانشوران شریک ہو کر اپنے مقالے پیش کئے۔
سمینار کا اختتام کنوینر سمینار قاری امتیاز احمد کے اظہاتشکراور قاری ریاض احمد مظاہری ندوی کے مختصر خطاب اور ان کی دعاء پر ہوا۔