16.1 C
Delhi
January 14, 2025
Hamari Duniya
قومی خبریں

فلسطین کے مسلمان مظلوم اور قابل رحم، اسرائیل اور اس کی سرپرست مغربی طاقتیں ظالم اور جابر : مفتی ابو القاسم نعمانی

Mufti Abul Qasim

دیوبند، 13اکتوبر (فہیم صدیقی ؍ ایچ ڈی نیوز)
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم وشیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے ایک خطاب میں فلسطین کے مسلمانوں کو مظلوم ،بے بس اور قابل رحم جبکہ اسرائیل اور اسکی سر پرست مغربی طاقتوں کو ظالم و جابر اور دشمن اسلام قرار دیا نیز مسجد اقصی عظمت و اہمیت پرروشنی ڈالی۔مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ فلسطین، مسجد اقصی اور سر زمین قدس کے ساتھ مسلمانوں کا جو ایمانی وجذباتی تعلق ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو فراموش کردیا جائے۔ مسجد اقصی کے سلسلہ میں قرآن پاک میں اللہ تعالی نے مستقل آیتیں نازل فرمائی ہیں’ جیسے'(ترجمہ)پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے،تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس آیت میں مسجد اقصی کا ذکرہے نیزمسجد اقصی کے ماحول اور اردگرد کی زمین کے مبارک ہونے کا تذکرہ ہے۔ آیت کا اصل مقصد تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سفر اسراءاور سفر معراج کو بیان فرمانا ہے؛ لیکن اسی کے ضمن میں اگلی آیات کے اندر یہودیوں اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی داستانیں بھی بیان کی گئیں ہیں۔مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ ”فلسطین ایک تاریخی مطالعہ”کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسجد اقصی کے ساتھ کئی اہم واقعات مربوط ہیں۔ یہ نبی کریم ﷺ کے سفر معراج کی پہلی منزل ہے،معراج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے آپ مسجد اقصی تشریف لے گئے پھر وہاں سے آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، واپسی میں بھی آپ مسجد اقصی تشریف لائے پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس ہوئے۔
مکہ سے مسجد اقصی تک کے سفر کو اسراءاور مسجد اقصی سے آسمانوں تک کے سفر کو معراج کہا جاتاہے۔اسی سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا،اسی سفر سے واپسی پر نبی کریمﷺ نے مسجد اقصی کے پاس تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی امامت فرمائی۔مسجد اقصی سے تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ¿ اول رہا، ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک رسول اللہﷺ نے مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی،پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد خانہ کعبہ کی طرف آپ نے رخ فرمایا۔

مولانا نعمانی نے کہا کہ مسجد اقصی اور سر زمین فلسطین متعدد انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی قیام گاہ اور ان کا مدفن ہے، وہاں کی مسجد حضرت سلیمان اور حضرت داود علیہما السلام کے ذریعہ تعمیر کی گئی ہے، پہلی تعمیرتو فرشتوں کے ذریعہ ہوئی،جب کہ دوسری تعمیر حضرت سلیمان اور حضرت داود علیہما السلام کے ذریعہ ہوئی ہے اس لئے مسلمانوں کا جو تعلق سرزمین فلسطین سے،وہاں کے باشندوں سے اور مسجد اقصی سے ہے وہ انتہائی جذباتی قسم کا،گہرا قلبی تعلق ہے آج یورپ کی سازش کی بناءپر عین قلب عرب کے اندر جو اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپا گیا ہے، اس کی ٹیس اس وقت سے لےکر آج تک پورا عالم اسلام محسوس کررہاہے۔چونکہ یہ ایک سازشی عمل تھا اس لیے مسلسل ہر مغربی ملک کی جانب سے اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے،اور نام نہاد ملک اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اپنے قدم آگے بڑھا رہاہے؛ بلکہ فلسطین کے جو اصل باشندے ہیں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑرہاہے۔مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہاہل فلسطین کی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ ابھی رمضان المبارک کے اندر جو تازہ حادثات پیش آئے ہیں کہ عین نماز کے وقت مسجد اقصی کے مصلیوں پر ظلم ڈھایا گیا، انہیں مارا پیٹا گیا اور اس کے بعد ان کی طرف سے جو معمولی سی مزاحمت ہوئی اس کو بہانہ بنا کر غزہ کے علاقے میں بمباری کی گئی جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، بچے اور عورتیں تک ماری گئیں لیکن نام نہاد امن پسند دنیا خاموش تماشاءبنی رہی لیکن شاباشی کے قابل ہیں وہ نہتے مجاہدین جنھوں نے اپنی بے سرو سامانی کے باوجود مزاحمت کی یہاں تک کہ اسرائیل جیسے متکبر اور سرکش ملک کو گھٹنے ٹیکنا پڑے اور وہ جنگ بندی کے لیے مجبور ہوا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ایسی کسمپرسی کے عالم میں ”ہم کیا کریں”اور کہا اس وقت ہمارے کرنے کے کئی کام ہیں، پہلا کام تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کریں؛ تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلہ میں ہم اکیلے نہیں ہے؛بل کہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا رائے عامہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی عادی ہے؛ اس لیے تمام دنیا کے مسلمان اور خاص طور سے بر صغیر اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان فلسطین اور اہل فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز کو بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں۔ وہ مغربی ممالک وہ یواین او وہ سلامتی کونسل جو اپنے من مانے مقاصد کے لیے خود ساختہ مسائل کے لیے امن وآشتی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، وہاں کے لوگوں پر اپنے فیصلے مسلط کردیتے ہیں،ان کی نگاہوں کے سامنے فلسطینی مسلمانوں اور وہاں کے باشندوں پرظلم ہورہا ہے؛ لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی؛اس لیے ضروری ہے کہ فلسطین اور باشندگان فلسطین کے حق میں اس زور و شور کے ساتھ آواز بلند کی جائےکہ سلامتی کونسل فلسطین کے مسئلے میں حق و انصاف کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو، فلسطینیوں کو ان کا حق دلایا جائے، ان کی جو زمینیں چھین لی گئی ہیں، وہ انہیں واپس کی جائیں نیز اسرائیل اور اس کے آقاوں کی طرف سے جو اقدامات ہورہے ہیں ان پر بندش قائم کی جائے۔اسی کے ساتھ ساتھ ہم سب کے سب مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی قدس کے باشندوں کی حفاظت فرمائے، انہیں ان کا چھینا ہوا وقار واپس دلائے، مسجد اقصی کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے۔

Related posts

NCPUL Seminar: قومی اردو کونسل اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے پابند عہد :ڈاکٹر شمس اقبال

Hamari Duniya

طلبہ کو موجودہ حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے

Hamari Duniya

خسرہ اور روبیلا کے خلاف جنگ جاری،ویکسینیشن سے متعلق غلط فہمیوں کودور کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے میڈیا

Hamari Duniya