نئی دہلی،20اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)۔
کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں ‘ انڈین فرینڈس آف فلسطین’ کی طرف سے منعقدہ ایک میٹنگ میں جمعیةعلماءہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے ہندوستان سے پرزور اپیل کی کہ وہ ’واسودھائیوا کٹمبکم‘ کی اخلاقیات پر قائم رہے اور ضرورت کی گھڑی میں فلسطینی عوام کو گلے لگائے”۔ انہوں نے کہا کہ چند گروہوں کی طرف سے اختیار کیے گئے رویے سے ملک کا سر نیچا ہوا ہے۔ انہوں نے ان یہودیوں کی تعریف کی جنہوں نے صیہونی نسل پرستی اور اس کے نفرت انگیز ایجنڈوں سے خود کو الگ تھلگ رکھا۔
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” غزہ میں جاری مظالم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں اور گزشتہ چند صدیوں میں پروان چڑھنے والے اقدار کی توہین بھی۔ اس تنازع نے مغرب کی منافقت ، ان کے دوہرے رویے اور اخلاقی دیوالیہ پن کو بے نقاب کردیا ہے جو فلسطین پر ہو رہے مظالم کو خاموش تماشائی بنے ہوئے دیکھ رہے ہیں جس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ بھی ظالم کے ساتھ ہیں۔ ” انہوں نے مزید کہا کہ ” یہ انسانیت کی ا?زمائش کی گھڑی ہے کہ وہ ظلم و بربریت اور مظالم کے وقت میں فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ امیر جماعت نے نیلسن منڈیلا کی تمثیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو نسل پرستی کے خلاف جدو جہد میں مصروف فلسطینیوں کے ساتھ یکجھہتی اور حمایت کرنی چاہئے۔جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے کہا کہ ہندوستان کو وشو گرو کا کردار ادا کرنا چاہئے اور موجودہ بحران کے خاتمے میں مدد کرنا چاہئے۔انہوں نے میڈیا کے منفی کردار پر تشویش کا اظہار کیا۔
رکن پارلیمنٹ دانش علی نے مسئلہ فلسطین پر مکمل خاموشی اختیا رکیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کیپیٹل ہل میں یہودیوں کے احتجاج سے پنیر اور چاک کا فرق واضح ہوجاتا ہے کہ یہودیت صیہونیت نہیں ہے”۔ ایک تجربہ کار رائٹر اور صحافی جان دیال نے فلسطین کے اپنے دورے کا ذکر کیا اور غزہ میں غیر انسانی حالات اور اسرائیلی قبضے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا’۔ انہوں نے مذہبی پوپوں سے فوری جنگ بندی کی کال کرنے کی بھی اپیل کی۔ سابق ایم پی، کے سی تیاگی نے کہا کہ غیر عرب ممالک میں ہندوستان پہلا ایسا ملک ہے جس نے فلسطین کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ آج اس ملک کی صورت حال افسوسناک بنی ہوئی ہے کہ فلسطینی جو وہاں کے اصل باشندہ ہیں، ان کی آبادی محض سات فیصد رہ گئی ہے۔ انہوں نے اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کے خلاف دنیا کی خاموشی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا”۔ اس موقع پرماہر تعلیم آدتیہ نگم، آریہ سماج کے آریہ وٹل، پروفیسر ششی شیکھر اور پروفیسر سلیم انجینئر موجود مندوبین میں شامل تھے۔
میٹنگ کی کال فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیل کی مذمت کے لیے دی گی تھی۔ یہ پروگرام محصور غزہ کے لوگوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے کی کوشش کے طور پر تھا جہاں 7 اکتوبر سے اسرائیل کی نہ رکنے والی بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں بے گناہ شہریوں کو تباہی کا سامنا ہے۔ تازہ ترین اسرائیلی بربریت کی مثال غزہ کے ایک اسپتال پر بمباری ہے جس میں 850 فلسطینیوں کی جانیں گئیں۔ اب تک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 1000 بچوں سمیت 2800 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ فلسطین کا جاری بحران دراصل ایک انسانی بحران ہے۔ اس قتل عام کے خلاف ہم سب کو مل کر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔