نئی دہلی،23 مارچ (ایچ ڈی نیوز)۔
ماونٹ مونگانوئی کے بے اوول اسٹیڈیم میں کھیلے گئے چوتھے ٹی 20 انٹرنیشنل میچ میں پاکستان کو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیوزی لینڈ نے یہ میچ 115 رنز کے بھاری مارجن سے جیت کر سیریز میں 3-1 کی ناقابلِ تسخیر برتری حاصل کر لی۔
میچ کا احوال:
نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 220 رنز کا شاندار اسکور بنایا۔ کیوی بیٹرز میں کپتان مچل سینٹنر نے 42 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی، جبکہ ٹم سیفرٹ نے 38 گیندوں پر 65 رنز بنائے، جس میں 5 چھکے اور 4 چوکے شامل تھے۔ دیگر کھلاڑیوں میں ڈیرل مچل نے 35 اور گلین فلپس نے 28 رنز کا حصہ ڈالا۔ پاکستانی بولرز میں حارث رؤف نے 2 وکٹیں لیں، لیکن وہ مہنگے ثابت ہوئے اور 42 رنز دے بیٹھے۔ شاہین آفریدی، محمد نواز اور دیگر بولرز نیوزی لینڈ کے بیٹرز کو روکنے میں ناکام رہے۔
جواب میں پاکستان کی بیٹنگ لائن مکمل طور پر بکھری ہوئی نظر آئی۔ پوری ٹیم صرف 16.2 اوورز میں 105 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی، جو ٹی 20 انٹرنیشنل میں پاکستان کا دسواں کم ترین اسکور ہے۔ کپتان بابر اعظم 22 رنز بنا کر سب سے زیادہ اسکورر رہے، جبکہ محمد رضوان نے 18 اور فخر زمان نے 15 رنز بنائے۔ باقی کوئی بھی بیٹر دہائی کا ہندسہ عبور نہ کر سکا۔ نیوزی لینڈ کے بولرز میں ایڈم ملن نے 4 وکٹیں حاصل کیں، جبکہ بین سیئرز اور زک فولکس نے بالترتیب 3 اور 2 وکٹیں لیں۔
شائقین کا ردعمل اور تنقید:
اس شرمناک شکست کے بعد پاکستانی شائقین کرکٹ نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ بہت سے لوگوں نے ٹیم مینجمنٹ، کپتانی اور کھلاڑیوں کے انتخاب پر سوالات اٹھائے۔ خاص طور پر بابر اعظم کی قیادت اور بیٹنگ حکمت عملی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ شائقین نے تبصرہ کیا کہ “پاکستان کرکٹ اس وقت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے”، جبکہ دیگر نے نئے کھلاڑیوں کو موقع دینے کا مطالبہ کیا۔
سیریز کا موجودہ حال:
اس جیت کے ساتھ نیوزی لینڈ نے پانچ میچوں کی سیریز میں 3-1 کی برتری حاصل کر لی ہے۔ پہلا میچ بارش کی نذر ہوا تھا، جبکہ دوسرے اور تیسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان نے تیسرا میچ جیت کر کچھ امیدیں ضرور جگائی تھیں، لیکن چوتھے میچ میں بدترین کارکردگی نے شائقین کو مایوس کر دیا۔ سیریز کا آخری میچ 26 مارچ کو کھیلا جائے گا، جو اب رسمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
یہ شکست پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئی، جو گزشتہ چند سالوں سے مستقل مزاجی کے فقدان اور دباؤ میں ناکامی کا شکار رہی ہے۔ اب شائقین اور تجزیہ کاروں کی نظریں اس بات پر ہیں کہ ٹیم مینجمنٹ اس ناکامی سے کیا سبق سیکھتی ہے اور مستقبل میں کیا تبدیلیاں لاتی ہے۔
