نئی دہلی: انتخابی عمل میں فعال اور پرجوش شرکت کے لیے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے مرکز جماعت اسلامی ہند میں منعقد پریس کانفرنس میں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے انتخابی نتائج کو نفرت اور تفریق پر مبنی سیاست کے خلاف واضح عوامی موقف کا اظہار قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ “ملک کے عوام نے تفریق پر مبنی بیانیوں کوفیصلہ کن طریقے سے مسترد کردیا ہے اور اپنے ووٹ کے ذریعے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ اتحاد، امن اور ہم آہنگی چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ انتخابی مہم میں بڑے قائدین کی جانب سے لوگوں کے مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے کی دانستہ کوششیں بے حد شرمناک تھیں اور پوری دنیا میں ملک کی بدنامی کا سبب بنیں۔ لیکن یہ ملک کے عام رائے دہندوں کی بالغ نظری اورشعور کی علامت ہے کہ انہوں نے نہ صرف ان غیر مہذب ہتھکنڈوں کا کوئی تاثر قبول نہیں کیا بلکہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان حرکتوں کو مسترد کردیا۔”
آپ نے مزید کہاکہ “غریب اور مفلوک الحال عوام کی اکثریت کے مفادات کو نظر انداز کرکے، کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دینے کے رجحان پر عوامی بے اطیمنانی کا بھی اس ووٹ کے ذریعے اظہار ہوگیا ہے۔
ہم تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان انتخابی نتائج سے سبق حاصل کریں اور نفرت و تفریق کی سیاست، فرقہ پرستی ، ذات پات، فرقوں اور مذہبی گروہوں کو طعن و تشنیع، ان کو بدنام کرنے یا الگ تھلگ کرنے کی مہم وغیرہ جیسے مذموم رجحانات سے اپنی سیاست کو پاک کریں۔” اس موقع پر امیر جماعت نے نئی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ریاستی مشنری اور دستوری و جمہوری اداروں کے سیاسی استحصال اور حزب مخالف پردباو ڈالنے کے لیے ان کے غلط استعمال کے رجحان کو فوری ختم کرے۔ یہ ناعاقبت اندیش طرز عمل جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور بااختیار اداروں پر عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔
اس موقع پر پروفیسر سلیم انجینئر ، نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ این ڈی اے میں حکمران جماعت کے اتحادیوں کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ عوام ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے سلسلے میں زیادہ چوکس، دیانت دار اور ذمہ دار رویے کا مظاہرہ کریں گے۔ انہیں چاہیے کہ دستوری قدروں کے محافظ اور علم بردار بن کر کھڑے ہوں اورحکومت کی پالیسیوں اور ایجنڈے پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہوتے ہوئے توازن قائم کرنے والی ایک بااثر قوت کا کردار ادا کریں۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ یہ موقع ان کے لیے بھی خود احتسابی کا موقع ہے۔ ہندوستانی عوام نے یہ واضح کردیا ہے کہ ملک کے رائے دہندوں سے مایوس ہوجانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جہاں حزب اختلاف کے لیڈروں کی ایک تعداد نے حوصلے، اعتماد اور واضح و شفاف پیغام کے ساتھ انتخابات میں حوصلہ لیا وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لیڈروں اور پارٹیوں کی ایک بڑی تعداد میں درکارجوش و ولولے، توانائی اور خود اعتمادی و وثوق کی کمی بھی محسوس کی گئی۔اکثر جگہوں پر عوامی رابطے کی کمی بھی صاف نظر آئی۔ انتخابی نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اگر تمام طبقات کو ساتھ لے کر زیادہ پر اعتماد، منظم اور متحد مہم چلتی تو ان کے لیے نتائج اور بہتر ہوسکتے تھے۔حزب اختلاف کی جماعتوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ایک بھرپور، تعمیری اور بامعنی رول کے لیے خود کو تیار کریں۔پریس سے مخاطب ہوتے ہوئے ملک معتصم خان ، نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے سول سوسائٹی، غریب عوام، مزدوروں، کسانوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے رول کی تعریف کرتے ہوئے انھیں انتخابات کا اصل ہیرو قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ یہ سب لوگ انتخابات کے بعد بھی دستوری قدروں و جمہوریت کی حفاظت نیز عدل و انصاف کے قیام کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔