نئی دہلی،28اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک سی عبدالحکیم کالج، میل وشارم تمل ناڈو، قومی سمینار کے دوسرے دن ملک کے اہم صاحبان قلم نے مقالہ خوانی کی۔ پہلے اجلاس کی صدارت صدر شعبہءاردو، سنسکرت یونیورسٹی پروفیسر عطاءاللہ خاں نے فرمائی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب کے فن کو ان کی شخصیت کی کمزوریوں سے الگ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ غالب نے بہت سی باتیں وقتی مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لیے کہی تھیں۔ اس اجلاس میں پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے ’غالب اور دکن‘، محمد منیرالدین عمری نے ’جنوبی ہند کا غالب: علامہ شاکر نائطی‘ ڈاکٹر نشاط احمد نے ’غالب اور حیدرآباد‘ اور ڈاکٹر شیخ فاروق پاشا نے ’روف خیر کی تحریروں میں غالب شناسی کے نقوش‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس کی صدارت صدر شعبہءاردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآبادنے کی۔ صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا کہ غالب کو مختلف علوم و نظریات کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس سے ہمارے تنقیدی سرمائے میں اہم اضافہ ہوا ہے۔ آج کا قاری رویتی انداز میں ادب پارے کا مطالعہ نہیں کرتا وہ متن کے سیاق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر امان اللہ ایم بی نے ’اہل تمل میں غالب شناسی: کلام غالب کے تمل ترجم کے حوالے سے‘، ڈاکٹر امین اللہ نے ’غالبِ دکن: یسیر کرنولی‘، ڈاکٹر منظور احمد دکنی نے ’وہاب قیصر کی کتاب ’سائنس اور غالب‘ غالب شناسی کا سائنسی زاویہ‘، پروفیسر محمد نثار احمد نے ’غالب اور ذکا: مکتوبات کے حوالے سے‘ ڈاکٹر ساجد حسین نے ’جنوب ہند میں غالب شناسی کی روایت‘، پروفیسر عطاءاللہ خاں نے ’غالب اور ذکا‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔
تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاسم علی خاں، سابق صدر شعبہءاردو ڈاکٹر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی، حیدر آباد نے فرمائی۔ صدارتی تقریر کے دوران انھوں نے کہا کہ جن زبانوں میں غالب پر زیادہ کام ہوا ہے تلگو ان میں سر فہرست ہے۔ تلگوں میں کلام غالب کے بہت زیادہ ترجمے بھی ہوئے ہیں اور کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ تلگو میں غزل کی باقاعدہ روایت ہے۔ یہاں غزلیں کہی بھی جاتی ہیں اور گائی بھی جاتی ہیں۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری نے ’جنوبی ہند میں غالب شناسی: ڈاکٹر سید عبداللطیف کرنولی کے خصوصی حوالے سے‘، جناب ظہیر دانش عمری نے ’دکن اور اور دیوان غالب کی شرحیں‘، ڈاکٹر بشیرہ سلطانہ نے ’جنوبی ہند میں غالب شناسی‘ ڈاکٹر ابو بکر ابراہیم عمری نے ’علامہ شاکر نائطی اور غالب‘ جناب محمد سیفی عمری نے ’جنوبی ہند میں دستیاب رسائل و جرائد کے غالب نمبر‘، ستار فیضی نے ’تلگو زبان میں غالب شناسی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔
چوتھے اور آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر محمد امین اللہ نے کی۔ صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا کہ ’جنوبی ہند میں غالب شناسی‘ ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن آج اس اجلاس میں جو مقالات پیش کیے گئے ان پر کم لکھا جاتا ہے اور مواد بھی کم ملتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک کامیاب سمینار ہے۔
اس اجلاس میں ڈاکٹر داود محسن نے ’تفہیم غالب فکریات غالب کی روشنی میں‘، کلیم اللہ نے تامل ناڈو کے تعلیمی اداروں میں غالب شناسی‘، ڈاکٹر سعید الدین نے ’اصغر ویلوری کی رباعیات میں خیالات غالب کی عکاسی‘، ڈاکٹر نور اللہ نے ’جنوبی ہند کا ایک اہم ڈرامہ ’دود چراغ محفل‘ ایک جائزہ‘، سردار ساحل نے ’سلیمان اطہر جاوید کی غالب شناسی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ سمینار کے بعد رات نو بجے کل ہند مشاعرے کا ہتمام کیا گیا جس کی صدارت جناب انیس احمد اور نظامت شفیق عابدی نے فرمائی اور شعرا میں ابرار کاشف، اکبر زاہد، مولانا شاکر احسن، لطیف الدین لطیف، شاہد مدراسی، ماہر مدراسی، وصی اللہ بختیاری عمری، جناب معین امر بمبو، سراج زیبائی، وحید پاشا قادری، انور ہادی، راجیو ریاض، امتیاز احمد امتیازی، کاتب حنیف، جنام محمود شاہد، سردار ساحل، ستار فیضی اور داود محسن نے کلام پیش کیا۔