سدھارتھ نگر،یکم اپریل (ایچ ڈی نیوز)۔
ماہ رمضان کا روزہ پورا ہونے پر ہر مسلمان پر صدقۂ فطر فرض ہے، یہ صدقۂ فطر روزہ دار کے لیے باعث طہارت ہے یعنی روزہ کے حقوق میں جو کمی ہوئی ہے اس سے اس کی بھرپائی ہوتی ہے اور ساتھ ہی مساکین، محتاج اور نادار کے لیے کھانے کا سامان مہیا ہو جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ الفطر فرض قرار دیا ہے جس سے روزہ دار ان لایعنی باتوں اور بے ہودہ کاموں کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے جو ان سے صادر ہوتے ہیں اور اس زکوۃ فطر سے مسکینوں کو کھانا مل جاتا ہے اور یہ زکوۃ ہر مسلمان پر فرض ہے مرد ،عورت،چھوٹا،بڑا،آزاد،غلام ہر ایک پر ایک صاع صدقۂ فطر کی ادائیگی فرض ہے۔
صدقۂ فطر میں صرف غلہ ہی نکالنا ثابت ہے نقد یعنی روپیہ پیسہ دینا بالکل درست نہیں ہے اس کی آسان اور واضح دلیل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس میں یوں آیا ہے۔
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور،ایک صاع کشمش، ایک صاع گیہوں، ایک صاع جو نکالنے کا حکم دیا ہے۔ یہ عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے، جس طرح وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد و ثابت ہےاسی طرح سے اس کو ادا کرنا ضروری ہے، اس میں اپنی خواہش و رائے اور عقل و قیاس کو دخل نہیں دینا چاہیے ۔
یہ دعوی بالکل عبث ہے کی روپیہ پیسہ ان مساکین کے لیے بہتر ہے اور اس قسم کا دعوی شدید ہولناک ہے، گویا اللہ تعالی اور رسول مطاع باذن اللہ مساکین کے مصلحتوں سے معاذ اللہ واقف نہ تھے، یہ شریعت میں پیوند کاری ہے، اس نوع کی باتوں سے دین کے اکمال و اتمام والی آیت کریمہ کے واضح مضمون پر اعتراض لازم آتا ہے کہ گویا کمی رہ گئ تھی، پھر نص کی موجودگی میں قیاس کی گنجائش نہیں ہے، عبادت اور صفت عبادت اور کمیت و کیف، عبادت میں کمی بیشی اور تغییر و تبدیلی عبادت کو بدعت بنا دیتی ہے اور بدعت سے عمل رائیگاں ہو جاتا ہے، عبادت میں جب عقل و قیاس اور ہوائے نفس کی پیروی والی بات آ جائے تو وہ عبادت نہیں رہ جاتی ہے وہ ہوائے نفس کی پیروی ہوتی ہے اور راہ مستقیم سے بھٹکنے کے اسباب میں ایک سبب اتباع شہوات ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اتباع شرع کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین