نئی دہلی،08نومبر(ایچ ڈی نیوز) ۔
آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ کے زیر اہتمام 8 نومبر کوغالب اکیڈمی دہلی میں تحفظ معاشرہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔جس کی صدارت مورچہ کے قومی ترجمان حافظ غلام سرور نے کی ۔صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی اس وقت اپنے جان ومال کی تحفظ کے لئے پریشان رہتا ہے تعلیمی و اقتصادی بد حالی کے باوجود تحفظ کی اس سماج کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے جس کا گراف دن بدن اونچا ہی ہوتا چلا جارہاہے ،سنجیدگی سے غور کرنے پر یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ آزادی کے ان 75 سالوں میں ہوئے چناﺅ میں اس سماج نے آج تک صرف ایک ہی ایشو پر ووٹ دینے کا کام کیا ہے اور وہ ہے اس کی اپنی جانی ومانی تحفظ کا معاملہ ۔مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں صدر جمہوریہ ،گورنر ،وزیر ،کمیشن کے چیئر مین جیسے بڑے عہدوں پر مسلمانوں کو بیٹھایا ہے لیکن عام مسلمانوں نے ہمیشہ اس پارٹی کو ہی اقتدار میں رکھنے کی کوشش کی ہے جو اسے تحفظ دینے میں چمپئن لگا لیکن یہ سارے تحفظ حرف زبانی تھے قانونی نہیں تھے آج کے بدلتے سیاسی ماحول میں مسلم سماج کو زبانی نہیں بلکہ قانونی تحفظ کی ضرورت ہے کیونکہ زبانی تحفظ سے اب کام چلنے والا نہیں ہے ۔انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی اب یہی چاہتی ہے کہ اسے بھی ایس سی ،ایس ٹی ایکٹ میں شامل کیا جائےاور جو سیاسی پارٹی اس مطالبے کو پوری کرے گا اسے ہی یہ آبادی ووٹ دینے کام کرے گی مورچہ کے جنرل سکریٹری شبیر احمد منصوری نے کہا کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی آج ملک میں مہا سیوک کے درجے پر ہے ۔
پنچر بنانا،پھل ،سبزی ،مرغا ،مچھلی فروخت کرنا ،سیلائی ،بنائی ،دھنائی کرنا اور دیگر مزدوری کا کام کرنا ہی وہ خدمات ہیں جو ہمارے سماج لوگ بڑی تعدادد میں کر رہے ہیں ۔فرقہ وارانہ کشیدگی یا دنگے فساد ہونے پر یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔مورچہ کے نائب صدر عبدالحکیم حواری نے کہا کہ انسداد تشدد ایکٹ جب سے نافذ ہوا ہے تب سے سماجی تشدد پر روک لگی ہے اگر اسی قانون کے دائرے میں مسلمانوں کو کسی بی صورت میں شامل کر دیا جائے گا تو اس سے فرقہ وارانہ تشدد پر بھی روک لگنا طے ہے جو ملک اورسماج دونوں کے ضروری ہے ۔اس موقع پر پروفیسر ربانی ،الہ آباد ،عتیق الرحمن ایڈوکیٹ ،ڈاکٹر ایم یو دعا،چتر سنگھ رچھویا ،انجینئر ڈی سی کپل،صغیر عباسی اور دلشاد علی نے بھی اظہار خیال کیا اور حکومت سے قانونی تحفظ کا مطالبہ کیا ۔
کانفرنس میں یہ قرارداد پاس ہوا کہ اگر مرکزی سرکار ایک آرڈیننس لاکر انسداد تشدد ایکٹ 1989 میں مسلمانوں کو بھی شامل کرلے تو ہم ان کی عظمت میں اضافہ ہو جائے گا ۔