لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا10 نکا تی اجلاس،یکساں سول کوڈ،کم عمری کی شادی ،ورشپ ایکٹ سمیت متعدد مسائل پر تبادلہ خیال
لکھنؤ، 05 فروری (ایچ ڈی نیوز)۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اتوار کو متعدد موضوع بحث مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے لکھنؤ میں ایک اہم میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔میٹنگ میں آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی سمیت 51 ممبران نے شرکت کی۔میڈیا ذرائع کے مطابق میٹنگ میں کامن سول کوڈ سمیت کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ بورڈ اجلاس میں ملک میں نفرت کے ماحول پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا گیاکہ ملک میں نفرت کا زہر ملایا جا رہا ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
میٹنگ کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمارے اس ملک کے لئے جس میں مختلف مذاہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں ایسے ملک میں کامن سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ہر طبقے کو اپنی شناخت کے ساتھ ملک میں زندگی گزارنے کی آزادی ہونی چاہئے۔انہوں نے آسام میں جاری کم عمری کی شادی کے خلاف چلائی جا رہی مہم پر تنقید کی اورکمر عمری کی شادی کے خلاف گرفتاریوں پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عرصہ پہلے شادی ہوئی اور اب کارروائی نا مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں پہلے سے موجود ہے اس لئے ایسی کارروائی سے آسام حکومت کو بچنا چاہئے۔
اے آئی ایم پی ایل بی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ میٹنگ میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ ملک کے آئین میں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس میں پرسنل لا بھی شامل ہے، اس لیے حکومت کو مذہبی آزادی کا احترام کرنا چاہیے اور یکساں سول کوڈ کا نفاذ ایک غیر ضروری عمل ہوگا۔ اتنے بڑے ملک میں جہاں کئی مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں، ایسا قانون ممکن نہیں اور نہ ہی اس سے ملک کو کوئی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون پر بھی بورڈ میں بحث ہوئی اور کہا گیا کہ یہ قانون حکومت کا بنایا ہوا قانون ہے۔ جسے پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔ اسے برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس سے ملک کا فائدہ بھی ہے۔ رحمانی نے کہا کہ وقف کے تحفظ اور مسلمانوں کی تعلیم، خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے اور سماجی زندگی میں ان کی شرکت بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔