ریاض،03نومبر(ایچ ڈی نیوز)۔
فٹ بال اور گالف میں سرمایہ کاری کے سلسلے کے بعد سعودی عرب نے بین الاقوامی کرکٹ کے سب سے زیادہ منافع بخش ایونٹ انڈین پریمیئر لیگ میں اربوں ڈالر کے حصص خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔اس معاملے سے واقف لوگوں نے بتایا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیروں نے آئی پی ایل کو 30 بلین ڈالر کی ایک ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کرنے کے بارے میں ہندوستانی حکومت کے عہدیداروں کی رائے طلب کرنے کی کوشش کی ہے جس میں سعودی عرب اہم حصہ لے گا۔ یہ معلومات عام نہیں ہیں اس لیے لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ بات چیت اس وقت ہوئی تھی جب محمد بن سلمان نے ستمبر میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔
لوگوں نے بتایا کہ ا±س وقت زیرِ بحث منصوبوں کے تحت مملکت نے لیگ میں 5 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے اور انگلش پریمیئر لیگ یا یورپی چیمپئنز لیگ کی طرح دیگر ممالک میں توسیع کی قیادت کرنے میں مدد کی تجویز پیش کی۔لوگوں نے کہا ہے کہ جبکہ سعودی حکومت مستقل مزاجی سے ایک معاہدے کی طرف پیش رفت جاری رکھنے کی خواہشمند ہے، ہندوستانی حکومت اور ملک کا طاقتور لیکن مبہم کرکٹ ریگولیٹر – بی سی سی آئی (بھارتی کرکٹ بورڈ) – ممکنہ طور پر اگلے سال کے وفاقی انتخابات کے بعد اس تجویز پر غور کرے گا۔ بی سی سی آئی کی قیادت ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ – جو وزیرِ اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی ہیں، کے صاحبزادے جے شاہ کر رہے ہیں۔سعودی عرب کا طاقتور خودمختار دولت فنڈ پی آئی ایف جس نے مملکت میں کھیلوں کی بہت سی سابقہ سرمایہ کاری کو مستحکم رکھا ہے، بالآخر وہ ذریعہ ہو سکتی ہے جو سودا طے پا جانے کی صورت میں بی سی سی آئی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
بی سی سی آئی اور سعودی حکومت کے سینٹر فار انٹرنیشنل کمیونیکیشن کے نمائندوں نے تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔2008 میں آغاز کے بعد سے آئی پی ایل نے بالی ووڈ فلمی صنعت کی چمک دمک اور ہندوستان کی وسیع آبادی کی توانائی کے ساتھ امریکی طرز کی مارکیٹنگ اختیار کی ہے۔ آئی پی ایل کا مرکزی تزویراتی اقدام کرکٹ کے روایتی طرز کو ترک کر کے تین یا چار گھنٹے کے کھیلوں کے ذریعے نشریاتی اداروں کے لیے موافق بنانا تھا جو بلے کے بڑے اور خطرناک طریقے سے گھومنے اور بار بار “چھکے” لگنے کی حوصلہ افزائی کریں جو کرکٹ کے ہوم رن (بیس بال میں میدان کے چاروں طرف دوڑ کر رن بنانا) کے برابر ہے۔لیگ نے آرامکو اور سعودی ٹورازم اتھارٹی سمیت اسپانسرز کی بہتات حاصل کی ہے۔ اور ہر موسم بہار میں صرف آٹھ ہفتوں پر مبنی سیزن کے باوجود بولی دہندگان نے گذشتہ سال 2027 تک آئی پی ایل گیمز کے نشریاتی حقوق کے لیے 6.2 بلین ڈالر ادا کیے تھے۔ یہ فی میچ ڈالر15.1 ملین تک بنتا ہے جو ای پی ایل (انگلش پریمیئر لیگ) اور امریکہ کی نیشنل فٹ بال لیگ میں ہر میچ کے لیے ڈالر17 ملین نیٹ ورکس کی ادائیگی سے بھی زیادہ ہے۔اس معاملے سے واقف لوگوں کے مطابق آئی پی ایل میں کسی بھی سعودی سرمایہ کاری یا لیگ کے طرز میں تبدیلی کا مطلب یہ ہوگا کہ میڈیا کے حقوق کے لیے ان معاہدوں پر دوبارہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
کرکٹ کا عالمی مقام
گذشتہ چند سالوں کے دوران سعودی عرب نے کھیلوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور مملکت میں کھیلوں کی گورننگ باڈی کے چیئرمین نے کہا ہے کہ وہ ملک کو کرکٹ کے عالمی مقام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔انگلش کرکٹ کے کپتان اور دنیا کے سرفہرست کھلاڑیوں میں سے ایک بین اسٹوکس نے اس سال ایک انٹرویو میں کہا، “آپ پیسے سے مقابلہ نہیں کر سکتے خاص طور پر وہ پیسہ جو سعودی عرب کچھ لوگوں کی طرف پھینک رہا ہے۔
سعودی عرب کے لیے کرکٹ میں کوئی بھی سرمایہ کاری کھیلوں اور بنیادی طور پر گولف اور فٹ بال پر نمایاں اخراجات کے بعد آئے گی۔ پی آئی ایف نے ایل آئی وی گالف ٹور کی حمایت کی جس نے اس سال پی جی اے ٹور کے ساتھ ایک اچانک انضمام پر اتفاق کیا۔سعودی عرب نے ایک گروپ کی قیادت بھی کی ہے جس نے انگلش پریمیئر لیگ فٹ بال کلب نیو کیسل یونائیٹڈ ایف سی کو خریدا اور اب 2034 فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے دہانے پر ہے۔ دنیا کے مشہور ترین کھیل میں داخل ہونے کے لیے مملکت نے برازیل کے نیمار، فرانس کے کریم بینزیما اور پرتگالی سپر اسٹار کرسٹیانو رونالڈو جیسے کھلاڑیوں پر لاکھوں خرچ کیے ہیں۔